سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) اعضاء اور زخموں میں قصاص کا حکم

  • 23741
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3962

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اعضاء اور زخموں میں قصاص کا حکم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جسمانی اعضاء اور زخموں کا قصاص لینا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَكَتَبنا عَلَيهِم فيها أَنَّ النَّفسَ بِالنَّفسِ وَالعَينَ بِالعَينِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالجُروحَ قِصاصٌ ...﴿٤٥﴾... سورة المائدة

"اور ہم نے یہودیوں کے ذمے تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔[1]

صحیحین میں یہ واقعہ موجود ہے کہ سیدہ ربیع  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے دانت توڑنے کے واقعے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"كِتَابُ اللَّهِ القِصَاصُ"

"کتاب اللہ میں اللہ کا قانون قصاص ہے۔[2]

جس شخص سے جان کا قصاص لینا درست ہے اس سے اعضاء اور زخموں کا قصاص لینا بھی درست ہے بشرطیکہ اس میں مذکورہ شرائط موجود ہوں۔

1۔یعنی جسے زخم لگایا گیا ہو یا جس کا کوئی عضو کاٹ دیا گیا ہو وہ شخص نے قصور ہو۔

2۔جنایت کرنے وال مکلف ہو۔

3۔مظلوم (آزادی اور غلامی میں)جنایت کرنے والے کے بر ابر کا ہواور جنایت کرنے والا باپ دادا ،نانانہ ہو۔ اور جس شخص سے جان کا بدلہ لینا درست نہیں اس سے زخم کا یا عضو کے کاٹ دینے کا بدلہ لینا بھی درست نہیں۔اس باب میں یہی قاعدہ چلتا ہے مثلاً:باپ نے بیٹے کو قتل کر دیا یا زخمی کر دیا تو قصاص نہیں۔

جو صورتیں جان کے قصاص کو واجب قراردیتی ہیں وہی صورتیں عضاء کے قصاص کو واجب قرار دیتی ہیں یعنی جنایت کرنے والا عمدا جنایت کا مرتکب ہو لہٰذا "شبہ عمد"یا "خطا"کی صورت میں زخموں اور اعضاء میں قصاص نہیں۔اعضاء میں قصاص کی صورت یہ ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ ناک کے بدلے ناک کان کے بدلے کان ہاتھ کے بدلے ہاتھ ٹانگ کے بدلے ٹانگ دائیں عضو کے بدلے دایاں عضو اور بائیں عضو کے بدلے بایاں عضو ہے جنایت کرنے والے نے جس کے دانت توڑے ہیں قصاص میں بھی اسی قسم کے دانت توڑے جائیں گے۔ آنکھ پپوٹا اوپر یا نیچے والا کاٹا گیا یا زخمی کیا گیا تو قصاص میں مجرم کا بھی وہی پپوٹا کاٹایا زخمی کیا جائے گا۔اسی طرح ہونٹ اوپر والا ہو یا نیچے والا قصاص میں مجرم کا بھی وہی ہونٹ کاٹا یا زخمی کیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ" "اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔"[3]

انگلی کے بدلے وہی انگلی کاٹی جائے گی جو جگہ اور نام میں اس سے مشابہ ہے اور ہتھیلی کے بدلے ہتھیلی کاٹی جائےگی جو اس کے مشابہ ہے داہنی کے بدلے ہتھیلی کے بدلے داہنی ہتھیلی اور بائیں ہتھیلی کے بدلے بائیں ہتھیلی اور کہنی بھی اسی طرح دائیں کے بدلے دائیں اور بائیں کے بدلے بائیں کاٹی جائے گا ۔اور شرم گاہ کے بدلے شرم گاہ کاٹی جائے گا کیونکہ ان اعضاء کی حد بندی ہے اور حد سے تجاوز کیے بغیر قصاص لینا ممکن بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ" "اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔"[4]

 مجرم سے عضو میں قصاص لینے کی تین شرائط ہیں:

1۔ عضو کے زیادہ ٹوٹنے یا اس کے زیادہ کٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو یعنی قصاص میں مجرم کا کوئی عضو جوڑ سے کاٹنا ہویا اس کی کوئی حد ہو جہاں جا کر ختم ہو تو وہ ٹھیک ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو اس میں قصاص لینا جائز نہیں لہٰذا ایسے زخم میں قصاص نہیں جس زخم کے لگانے کا اثر منتہی ہو، مثلاً: جائفہ یعنی ایسا زخم جس کا اثر پیٹ کے اندر تک ہو۔ دانت کی ہڈی کے سوا پنڈلی ران یا بازو کی ہڈی توڑنا ہو۔ اس میں  بھی مماثلت کا امکان نہیں لہٰذا قصاص نہیں البتہ دانت کی ہڈی میں قصاص ممکن ہے کہ جنایت کرنے والے کا مطلوبہ دانت ریتی وغیرہ سے رگڑ کر اتنا اتار دیا جائے جتنا دانت اس نے توڑاتھا۔

2۔قصاص میں ظالم اور مظلوم دونوں کے عضو کے نام اور جگہ میں مماثلت کا بھی لحاظ کیا جائے گا۔ ہاتھ پاؤں آنکھ اور کان وغیرہ اعضاء میں سے دایاں دائیں کے بدلے اور بایاں بائیں کے بدلے کاٹا جائے گا برعکس نہ ہوگا۔کیونکہ ہرحصے اور عضو کی ایک خاص منفعت ہے اور خاص نام ہے لہٰذا دایاں اور بایاں حصہ دونوں مساوی نہیں ہو سکتے۔ ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی ساتھ والی انگلی کے برابر نہیں ہو سکتی جو انگلی کاٹی جائے گی قصاص میں بھی وہی انگلی کاٹ دی جائے گی اسی طرح قصاص میں اصلی عضو کے بدلے میں کسی کا کوئی زائد عضو نہیں کاٹا جائے گا۔

3۔ظالم اور مظلوم دونوں کے عضو صحیح یا مریض ہونے میں اور کامل یا ناقص ہونے میں برابر ہوں۔لہٰذا کامل اور صحت مند ہاتھ یا ٹانگ کے بدلے میں ظالم کا بیمار یا ناکارہ ہاتھ ٹانگ نہیں کاٹی جائے گی۔پوری انگلیوں اور پورے ناخن والا ہاتھ یا پاؤں کے بدلے میں نہیں کاٹا جائے گا۔اس میں دیت ہوگی ۔قصاص میں دیکھنے والی اور نہ دیکھنے والی آنکھ یا بولنے والی اور نہ بولنے والی زبان برابر نہیں۔اس صورت میں اگر مظلوم چاہے تو اپنے کامل عضو کے بدلے مجرم کا ناقص عضو کاٹ کر قصاص لے سکتا ہے ورنہ دیت قبول کر لے۔

زخموں میں قصاص:

ہر وہ زخم جو ہڈی تک اثر کر جائے اس میں قصاص ہے کیونکہ اس میں کمی و بیشی کے بغیر پورا پورا بدلہ لینے کی صورت ممکن ہے مثلاً:سر چہرے کا ایسا زخم جس سے ہڈی ننگی ہو جائے یا بازو پنڈلی ران اور قدم کا زخم ہو۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ" "اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔"[5]

جو زخم ہڈی تک نہ پہنچ پائے اس میں قصاص بھی نہیں مثلاً:سر وغیرہ کا معمولی زخم یا پیٹ کا گہرا زخم اس میں کمی بیشی ضرور ہوجاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے۔

"لا قود في المأمومة ولا في الجائفة، ولا في المنقلة"

"مامومہ ،جائفہ اور منقلہ  میں قصاص نہیں۔"[6]

یاد رہے! مامومہ سے مراد ایسا زخم ہے جو دماغ تک پہنچ جائے۔جائفہ وہ زخم ہے جو پیٹ کے اندر تک پہنچے اور منقلہ وہ زخم ہے جس سے سر پھٹ جائے اور ہڈی سر ک جائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" زخموں میں قصاص کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور اجماع سے ثابت ہے بشرطیکہ دونوں شخصوں میں مساوات ہو۔ اگر کسی نے سر پھوڑدیا تو قصاص میں بھی سر پھوڑا جائے گا۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو۔ مثلاً: کسی نی اندرونی ہڈی توڑ دی۔یا سر میں زخم  لگایا جو گہرا نہ تھا اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت واجب ہے۔[7]

ہاتھ لاٹھی یا کوڑے وغیرہ کی ضرب میں قصاص سے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :"اہل علم  کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ اس میں قصاص نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول ہے مذکورہ صورتوں میں قصاص ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور دیگر فقہائے کرام سے یہی منقول ہے۔سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں یہی وارد ہے۔اور (ہمارے ہاں) یہی نقطہ نظر درست ہے۔[8]

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا :"میں اپنے عمال کو اس لیے نہیں بھیج رہا کہ وہ لوگوں کو ماریں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جس نے ایسا کیا میں اس سے قصاص لوں گا۔اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قصاص کے لیے خود اپنے آپ کو پیش کرتے تھے۔"[9]اس کا مطلب یہ ہے کہ(حاکم سے) قصاص تب لیا جائے گا جب حاکم کسی کو ناجائز سزادے۔ اگر جائز سزا ہو تو اس میں بالا جماع قصاص نہیں۔

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"شافعیہ،حنفیہ ،مالکیہ اور متاخرین حنابلہ وغیرہ کا یہ مسلک ہے کہ تھپڑاور ضربہ (مارنے)میں قصاص نہیں ۔ بعض نے اس پر اجماع کا دعوی نقل کیا ہے۔حالانکہ یہ قول قیاس صریح نصول اور اجماع صحابہ کے خلاف ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِن عاقَبتُم فَعاقِبوا بِمِثلِ ما عوقِبتُم بِهِ...﴿١٢٦﴾... سورة النحل

"اور تم اگر بدلہ لوتو بالکل اتنا ہی بدلہ لو جتنا صدمہ تمھیں پہنچنا  گیا ہے۔"[10]

"مظلوم کو چاہیے کہ تھپڑ کے بدلے تھپڑ رسید کرے۔ اور اسی جگہ پر مارے جہاں پر مارا گیا تھا اور ویسی ہی چیز سے ضرب لگائے جس چیز سے اسے ضرب لگائی گئی۔ یہی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا تھا اور خلفائے راشدین کا بھی یہی عمل ہے اور قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے۔"[11] 

ایک شخص کا قصاص پوری جماعت سے لینے کا بیان

اگر لوگوں کی ایک جماعت مل کر ایک شخص کو ارادتاً ظلمنا قتل کر دے تو ان سب سے قصاص لیا جائے گا۔ علماء کی صحیح رائے کے مطابق مقتول کے بدلے میں سب قتل کیے جائیں گے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان :

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ القِصاصُ فِى القَتلَى الحُرُّ بِالحُرِّ وَالعَبدُ بِالعَبدِ وَالأُنثىٰ بِالأُنثىٰ فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعروفِ وَأَداءٌ إِلَيهِ بِإِحسـٰنٍ ذ‌ٰلِكَ تَخفيفٌ مِن رَبِّكُم وَرَحمَةٌ فَمَنِ اعتَدىٰ بَعدَ ذ‌ٰلِكَ فَلَهُ عَذابٌ أَليمٌ ﴿١٧٨ وَلَكُم فِى القِصاصِ حَيو‌ٰةٌ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٧٩﴾... سورةالبقرة

"اے یمان والوں! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے آزاد آزاد کے بدلے غلام غلام کے بدلے اور عورت عورت کے بدلے ہاں! جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی۔جائے تو اسے معروف طریقے سے اتباع (دیت کا مطالبہ) کرنا چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے تمھارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی سرکشی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا۔عقل مندو! قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے اس باعث تم(قتل ناحق سے) رکوگے۔"[12]میں عموم ہے۔

اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اس مسئلے میں اجماع ہے جناب سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ  سے مروی ہے کہ"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سات افراد کوایک آدمی کے قصاص میں اس سے قتل کروادیا تھا کہ وہ سب ایک آدمی کو دھوکے سےقتل کرنے میں شریک تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:"اگر صنعاء شہر کے سارے باشندے اس آدمی کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا ۔"[13]

علاوہ ازیں دیگر صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے کہ ایک آدمی کے قتل میں انھوں نے ایک سے زیادہ افراد جو قتل میں شریک تھے سب کو قتل کیا ہے۔ اس مسئلے کی مخالفت کسی صحابی سے منقول نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اس پر اجماع تھا۔

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔"ایک آدمی کے قتل میں شریک پوری جماعت کو قتل کرنے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور اکثر فقہائے کرام عظام کا اتفاق ہے اگرچہ یہ قصاص ظاہری ضابطہ (ایک شخص کے بدلے میں ایک شخص کو قتل کیا جائے)کے خلاف ہے لیکن اس میں حکمت اور مقصد یہ ہے کہ دوسروں سے قصاص نہ لینا نا جائز خونریزی میں تعاون کا ذریعہ نہ بن جائے۔"[14]

علامہ ابن رشد  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :"قتل کا بدلہ قتل معاشرے میں خونریزی کو روکنے کے لیے ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس پر تنبیہ کی ہے۔ اگر ایک فرد کے قتل میں شریک جماعت کو قتل نہ کیا جائے تو قتل و غارت کا خطرناک دروازہ کھل جائے گا کہ کسی بھی آدمی کو قتل کرنے کے لیے متعدد افراد اس لیے ایکا کر لیں گے کہ انھیں قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا نیز زجز تو بیخ کا مقصد تبھی حاصل ہوگا اور مقتول کے ورثاء کی تسلی تبھی ہوگی جب قتل میں شریک  تمام افراد سے قصاص لیا جائے گا۔"[15]

ایک فرد کے قتل میں شریک جماعت کے تمام افراد کو تب قتل کیا جائے گا جب ہر ایک نے ایسا کام کیا ہو جس سےآدمی قتل ہو جائے۔ اگر ہر شخص کا انفرادی عمل جان لینے کا موجب نہ ہو لیکن وہ سب باہمی مشورے میں شریک تھے اور کچھ افراد نے قتل کیا تو سب سے قصاص لینا واجب ہوگا کیونکہ قتل میں ہر ایک دوسرے کا معاون تھا۔

اگر ایک شخص نے کسی کو مجبور کیا کہ فلاں کو قتل کر دو چنانچہ اس نے مجبوری میں اسے قتل کر دیا تو مجبور کرنے والے اور جسے مجبور کیا گیا ہے دونوں کو قصاص میں قتل کیا جائے گا بشرطیکہ دونوں میں قصاص کی مذکورہ جملہ شرائط موجود ہوں ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قاتل نے خود کو زندہ رکھنے کے لیے قتل کیا ہے باقی رہا مجبور کرنے والا تو وہ قتل کا سبب بنا ہے۔

جس نے بچے یا دیوانے شخص کو حکم دیا کہ فلاں شخص کو قتل کر دو اور اس نے قتل کر دیا تو اس صورت میں قصاص صرف اسی شخص سے لیا جائے گا۔ جس نے قتل کا حکم دیا ہے کیونکہ اس میں قاتل حکم دینے والے کا آلہ بنا ہے۔ نیز بچہ اور دیوانہ شرعاً مکلف نہیں۔ اس لیے ان سے قصاص بھی نہیں لیا جائے گا۔

اسی طرح اگر کسی نے ایسے عاقل و بالغ شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا جسے یہ علم نہ تھا کہ مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے جیسا کوئی شخص غیر مسلم ملک میں پیدا ہواور اسے احکام شریعت سے واقفیت نہیں۔ اگر اس نے مقرر شخص کو قتل کر دیا تو قصاص صرف اسی سے لیا جائے گا۔ جس نے حکم دیا کیونکہ وہی قتل کا سبب بنا ہے۔ باقی رہا قاتل تو وہ عدم علم کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا۔ اگر مامور شخص عاقل و بالغ ہو اور حرمت قتل سے واقف ہو تو اگر وہ کسی کو قتل کر دے گا تو اس سے قصاص لیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق"

"خالق کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔"[16]

یاد رہے حکم دینے والا بادشاہ ہو یا مالک یا کوئی اور شخص حکم دینے والے کوو قت و حالات کے مطابق عبرتناک سزا دی جائے گی کیونکہ یہ شخص گناہ کے ارتکاب کا سبب ثابت ہوا ہے۔

اگر ایک شخص کو عمداً قتل کرنے میں دو آدمی شریک تھے لیکن ایک میں وجوب قصاص کی شرائط موجود نہیں دوسرے میں وہ شرائط پائی جاتی ہیں تو دوسرے شخص سے قصاص لیا جا ئے گاکیونکہ وہ قتل میں شریک ہے پہلے سے نہیں کیونکہ اس میں قصاص نہ لیے جانے کا سبب موجود ہے۔

جس نے کسی کو پکڑ کر رکھا حتی کہ دوسرے نے اسے قتل کر دیا تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا پکڑنے والے کو جیل میں قید رکھا جائے گا حتی  کہ وہ وہیں مر جائے ۔[17]

جس طرح چند افراد مل کر ایک شخص کوقتل کر دیں تو سب سے قصاص لیا جاتا ہے اسی طرح اگر کچھ افراد مل کر کسی کو زخم لگائیں یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیں گے تو ان سب کو زخم لگایا جائےگا یا عضو کاٹنے کی صورت میں سب کا وہی عضو کاٹا جائے گا جو انھوں نے مل کر کاٹا تھا اور یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اس جرم میں کس نے کتنا حصہ لیا۔ مثلاً:کچھ لوگوں نے ایک شخص کے ہاتھ پر تیز دھار آلہ رکھا۔ پھر انھوں نے مل کر زور لگایا جس سے ہاتھ کٹ گیا تو اسی طرح ان تمام مجرموں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خدمت میں حاضر ہو کر دو آدمیوں نے گواہی دی کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے۔ سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے گواہی کی بنیاد پر ملزم کا ہاتھ کاٹ دیا تھوڑی دیر کے بعد ویہ دونوں ایک اور شخص کو پکڑ کر لے آئے اور کہا:اصل چور تو یہ ہے پہلے شخص کے بارے میں ہم سے غلطی سر زد ہو گئی تھی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے دوسرے شخص کے خلاف دونوں گواہی رد کر دی اور پہلے شخص پر غلط الزام لگانے کی وجہ سے ان دونوں پر دیت عائد کر دی اور فرمایا:

"لو علمت أنكما تعمدتما لقطعتكما"

"اگر مجھے علم ہوتا کہ تم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو میں تم دونوں کے ہاتھ کاٹ دیتا۔"[18] 

کسی عضو پر جنایت کی وجہ سے اس کا اثر دوسرے عضو تک پہنچ جائے یا اس کے نتیجے میں جان چلی جائے تو یہ اثر بھی جنایت میں شامل سمجھا جائے گا کیونکہ جس چیز کی ذمے داری قبول کی جائے گی اس کے اثرات کی ذمے داری بھی اس میں شامل ہوتی ہے مثلاً:اگر ایک انگلی کاٹی پھر زخم خراب ہو جانے کی وجہ سے دوسری انگلی یا اس کا پورا ہاتھ ضائع ہو گیا تو قصاص میں پورا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ اور کسی چھوٹی جنایت کے نتیجے میں جان ضائع ہوگئی تو قصاص واجب ہو گا۔

کسی عضو یا زخم میں اس وقت تک قصاص لینا درست نہیں جب تک وہ درست نہ ہو جائے کیونکہ سیدنا جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

"أن رجلا جرح ، فأراد أن يستقيد ، فنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يستقاد من الجارح حتى يبرأ المجروح"

"ایک شخص کو زخمی کر دیا گیا۔ جب مظلوم نےبدلہ لینا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے منع کر دیا کہ وہ تندرست ہونے سے پہلے بدلہ لے۔"[19]

اس میں حکمت یہ ہے کہ ممکن ہے مظلوم کا زخم خراب ہو جائے اور وہ خرابی آگے سرایت کر جائے جس کی وجہ سے پورا عضو ناکارہ ہو جائے یا اس کی جان چلی جائے۔ اگر اس نے زخم کے لگنے کے فوراً بعد قصاص لے لیا۔ پھر بعد میں اس کے زخم نے سارے عضو کوضائع کر دیا تو اسے مزید قصاص نہیں دلوایا جائے گا کیونکہ اس نے قصاص لینے میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔

" قضى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في رجل طعن رجلا بقرن في رجله " , فقال: يا رسول الله أقدني , فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " لا تعجل حتى يبرأ جرحك " , قال: فأبى الرجل إلا أن يستقيد , " فأقاده رسول الله - صلى الله عليه وسلم - منه " , قال: فعرج المستقيد , وبرأ المستقاد منه , فأتى المستقيد إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال له: يا رسول الله , عرجت وبرأ صاحبي , فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " ألم آمرك ألا تستقيد حتى يبرأ جرحك فعصيتني؟ , فأبعدك الله وبطل جرحك "

"ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے کی ہڈی میں نیزے کا بھالا ماردیا مضروب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور کہا:مجھے قصاص چاہیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :جلدی نہ کر جب تندرست ہو گا تب قصاص لے لینا لیکن اس نے قصاص لینے پر اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے قصاص دلوادیا جس نے قصاص لیا تھا وہ لنگڑا ہو گیا اور جس سے قصاص لیا گیا تھا وہ تندرست ہو گیا۔ چند دن بعد وہ آیا اور کہا: میں تو لنگڑا ہو گیا ہوں اور میرا صاحب ٹھیک ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میں نے منع کیا تھا کہ زخم درست ہونے سے پہلے بدلہ نہ لو لیکن تونے میری بات نہ مانی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تیرے لنگڑے پن کو باطل قراردے دیا ہے۔"[20]

ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری شریعت محاسن کا مجموعہ ہے۔ اس کے جملہ احکام عدل و رحمت پر مشتمل ہیں اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے۔

﴿وَتَمَّت كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدقًا وَعَدلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِمـٰتِهِ وَهُوَ السَّميعُ العَليمُ ﴿١١٥﴾... سورة الانعام

"آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے اس کے کلام کوکوئی بدلنے والا نہیں اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔"[21]

ستیاناس ہو اس قوم کا جوان بہترین احکام کے بدلے طاغونی اور من گھڑت بلکہ ظالمانہ احکام کا نفاذ چاہتے ہیں "بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا""ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدل ہے۔"[22]


[1]۔المائدہ:5:45۔

[2]۔صحیح البخاری الصلح باب الصلح فی الدیۃ حدیث 2703۔وصحیح مسلم القسامۃ باب اثبات القصاص فی الاسنان وما فی معناھا حدیث1675۔

[3]۔المائدہ:5۔45۔

[4] ۔المائدہ:5۔45۔

 [5]۔المائدہ:5۔45۔

[6]۔سنن ابن ماجہ الدیات باب مالا قود فیہ حدیث 2637۔

[7] ۔مجموع الفتاوی 1/475۔

[8] ۔ملاحظہ کیجئے سابقہ حوالہ۔

[9] ۔مسند احمد :1/41باختصار و مجموع الفتاوی 28/379۔380۔

[10] ۔النحل:16۔126۔

[11] ۔اعلام الموقعین :1/294۔

[12]۔البقرۃ:2/179۔178۔

[13] ۔صحیح البخاری الدیات باب اذا اصاب قوم من رجل حدیث6896۔

[14] ۔اعلام الموقعین 3/128۔

[15] ۔بدایۃ المجتہد :2/710۔

[16]۔مسند احمد 1/131۔والمصنف لا بن ابی شیبہ السیر باب فی امام السریہ یا مرھم بالمعصیہ من قال لا طاعۃ لہ 6/549حدیث 33706۔واللفظ لہ۔

[17] ۔مؤلف  علیہ السلام  نے جیل میں قید رکھنے کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔

[18]۔صحیح البخاری الدیات باب اذا اصاب قوم من رجل  ھل یعاقب او ینقص منھم کلھم ؟قبل حدیث6896۔معلقاً۔

[19]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 3/87حدیث 3092۔

[20]۔مسند احمد 2/217۔

[21] ۔الانعام: 6۔115۔

[22] الکھف 18۔50۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

قصاص اور جرائم کا بیان:جلد 02: صفحہ384

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ