سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(306) خلاف حقیقت فیصلے سے حقیقت نہیں بدلتی

  • 23675
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 687

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی آدمی کے خلاف ایک پلاٹ کے سلسلے میں میرا مقدمہ عدالت میں چل رہا تھا۔ عدالت نے شہادتوں کی بنیاد پر میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ اگرچہ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ صادر کر دیا ہے مگر پلاٹ پر درحقیقت میرا کوئی حق نہیں تھا۔ مقدمے میں ہار جیت انا کا مسئلہ بن گیا تھا، پوچھنا یہ ہے جب جج نے میرے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے تو کیا اس پلاٹ پر میرا حق ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غلط فیصلے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ جس کا حق ہو اسے دینا چاہئے، اگر غلطی سے یا گواہوں کی غلط گواہی سے خلافِ حقیقت فیصلہ ہو گیا ہو تو قاضی پر تو کوئی گناہ نہیں کیونکہ اس نے تو شہادتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے لہذا ظاہری طور پر یہ فیصلہ نافذ العمل ہوتا ہے لیکن قاضی کے فیصلے سے حرام حلال اور حلال حرام نہیں ہوتا۔

اگرچہ آپ کے حق میں عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے مگر پلاٹ اس فیصلے سے آپ کے لیے حلال نہیں ہوا۔ اللہ کا خوف کرتے ہوئے صاحبِ حق کو اُس کا حق واپس کر دینا چاہئے۔ اس سلسلے میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذ منه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار)(بخاري، الاحکام، موعظة الامام للخصوم، ح: 7169، مسلم، ح: 1713)

’’یقینا میں ایک انسان ہی ہوں اور تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو (تاکہ میں فیصلہ کروں) اور شاید تم میں سے کوئی آدمی اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز اور چرب زبان ہو، میں جو کچھ سنوں (اور اس سے جس نتیجے پر پہنچوں) اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دوں (حالانکہ وہ حق پر نہیں) تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کر دوں تو میں اس کے لیے جہنم کی آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اسلامی آداب و اخلاق،صفحہ:636

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ