سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) ڈیپریشن والی حاملہ کا بیماری بڑھنے یا ناقص الحلقت بچہ جنم دینے کے خدشے سے اسقاط حمل کروانا

  • 23365
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1319

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون جوڈیپریشن کاشکار رہی ہیں اورمسلسل اس کےلیے دواکااستعمال بھی کررہی ہیں،اس وقت آٹھ ہفتے کےحمل سےہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہےکہ دواؤں کی بنا پر اس بات کادوفیصد امکان ہےکہ بچہ معذور یاناقص الخلقت پیداہو۔اس پرمستزادیہ کہ ولادت کےبعد ڈیپریشن کےبڑھنے کےامکانات اورزیادہ ہوں گے۔

ان حالات میں کیا وہ  اپنا حمل ضائع کرسکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسقاط حمل اسی لیے منع قرار دیاگیا ہےکہ اس کی بنا پر ایک انسانی جان ضائع ہوتی ہے۔ یہ صحیح ہےکہ جنین میں چارماہ گزرے پروح پھونک دی جاتی ہے لیکن نطفہ کےحمل میں استقرار ہوتےہی اس میں بڑھنے اورپرورش پانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔اگر نطفے کوقدرتی حالات میں چھوڑ دیاجائےتووہ علقہ (جونکہ کی مانند کیڑا)، پھرمضغہ(گوشت کالوتھڑا) پھرعظام(ہڈیوں کےہیکل) میں تبدیل ہوکر رہےگا یہاں تک کہ اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔چارماہ سےپہلے ہی اگراس کوضائع کردیا گیا توبظاہر ایک ذی مخلوق کوضائع نہیں کیاگیا لیکن اس کی مثال ایسےہی ہےجیسے درخت کےبیج کوجوزمین میں درخت اگانے کےلیے دبا دیا گیاتھا، اسےزمین سےکھود کرباہر پھینک دیاجائے۔یہ بیج اگر زمین کی گود میں دبارہتاتووہ پودے کی شکل میں اپنا سرنکالتا اورپھر ایک دن تناوردرخت کی شکل اختیار کرلیتا۔

بہرصورت اسقاط حمل عموماً توممنوع ہے،خاص خاص حالات میں جائز ہوسکتاہے۔

لیکن مندرجہ ذیل شروط کا خیال رکھاجائے:

(1)  کم از کم دویاتین ڈاکٹرز اس بات کی رپورٹ دیں کہ اگربچہ حمل میں باقی رہاتو بوقت ولادت یاولادت سےقبل ماں کی جان کوخطرہوسکتاہے۔

(2)   ایسی صورت میں بہتر ہےکہ چار ماہ سےقبل ہی اسقاط کرالیا جائے تاکہ کم از کم ذی روح مخلوق کومارنے کاگناہ لازم نہ ہو۔

(3)  اگرچار ماہ گزرچکے ہیں اورڈاکٹروں کامتفقہ فیصلہ ہوکہ ماں کی جان کوشدید خطرہ لاحق ہےتوبھی اسقاط کرایاجاسکتاہےاوراگر ایسا کیا توقتل خطا کاکفارہ ادا کیاجائے، جس کی تفصیل بعد میں آرہی ہے۔

یہ بھی اس اصول کی بنا پر برداشت کیاگیا کہ بڑے ضرر سےبچنے کےلیے چھوٹے ضرر کوبرداشت کیاجاتاہے۔

باقی  جس صورت کا سائل نےتذکرہ کیاہے، اس میں ماں یابچے کی جان کوکوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، زیادہ سےزیادہ اس  بات کاخدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ بچہ معذور یا ناقص الخلقت پیداہوگا۔یہ وجہ اتنی قوی نہیں کہ اس کی بنا پر ایک بچے کی دنیا میں آنے سےروک دیاجائے۔دنیا میں لاتعداد معذور بچے موجود ہیں اوران کےوالدین یا اجتماعی بہبود کےادارے ان کی دیکھ بھال کرتےہیں۔نہ صرف بچے بلکہ بڑے بوڑھے بھی بعض دفعہ حوادت کی بناپر معذور ہوجاتےہیں، توکیاان کی معذوری کی بناپر انہیں موت کےحوالے کردیا جائے؟

ڈیپریشن ایک بیماری ہےجس کاعلاج ممکن ہے،نہ صرف دواؤں بلکہ اللہ کا ذکر اورتلاوت قرآن کثرت سےکی جائے تواس کامداواممکن ہے۔

نبی ﷺ نے’’عزل،، سےمنع فرمایا اوراسے(الواد الخفی)’’ ایک مخفی انداز میں زندہ درگورکرنا،، سے تعبیر فرمایا۔(صحیح مسلم ،النکاح،حدیث :1442)

روح پھونکےجانے کےبعد حمل ضائع کرنا،قتلِ نفس میں آتاہے،جس کاتذکرہ اس آیت میں ہے:

﴿مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَرضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا ... ﴿٣٢﴾... سورة المائدة

’’ جوشخص کسی کوقتل کرے،سوائے اس کےکہ وہ کسی کاقاتل ہویا زمین میں فساد کرنےوالا ہو،تو گویا اس نےتمام لوگوں کوقتل کیا۔،، (المائدہ:5؍32)

کفارہ کی تفصیل یہ ہے:

کسی بھی مسلمان کااگر غلطی سےقتل ہوجائے تواس میں دیت اورکفارہ ایک غلام آزاد کرناواجب ہوجاتا ہے۔ اگرغلام آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہوتودوماہ کےلگاتارروزے رکھنا واجب ہوجاتاہے۔

البتہ اگر کسی حاملہ عورت کوچوٹ پہنچائی گئی، جس سے اس کاحمل ساقط ہوگیاتو بروایت مغیرہ بن شعبہ نبیﷺ نےچوٹ پہنچانے والے پرایک غلام(مرد یالونڈی) دینے کا فیصلہ سنایا۔

لیکن اگرمذکورہ سوال کےمطابق عورت نےخود اسقاط کروایاہوتو کیا اس کابھی یہی حکم ہوگا؟

ابن قدامہ المغنی میں لکھتےہیں:

« واذا شربت الحامل دواء فألقت به جنيئا فعليها غرة لا ترث منها شيئاً وتعتق رقبة»

’’ اگرحاملہ عورت ایسی دواپی لےجس سےحمل ساقط ہوجائے تواس پر ایک غرہ(غلام کادینا) ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔،،(المغنی:12؍81)

غلام آزاد کرنےمیں اختلاف ہے۔اکثر علماء کےنزدیک صرف غرہ کادینا ہی کافی ہےاور اس غرہ کےوارث وہ سب لوگ ہوں گے جواس بچے کےحقیقی وارث تھے،ماسوائے اس عورت کےجس نےاس بچے کوحمل گراکرضائع کیا۔

غرہ کی قیمت کےبارےمیں لکھتےہیں: غرہ دیت کےبیسویں حصے کےبرابر ہے،یعنی پانچ اونٹ۔یہ قول حضرت عمر﷜ اورحضرت زید﷜ سےمروی ہےاوربعد کےعلماء میں نخعی،شعبی، ربیعہ، قتادہ اورامام  مالک، امام شافعی اوراصحاب الرائے کابھی یہی قول ہے۔

سورہ نساء کی آیت : 92 سےیہ بھی معلوم ہوتاہےکہ مقتول کےورثاء اگردیت معاف کردیں تو پھردیت کادینا واجب نہیں رہتا۔

یہ تفصیل اس لیے  لکھ دی گئی ہےتاکہ اس مسئلہ کی وضاحت ہوجائے۔عام طورپر خواتین اسقاط میں تساہل سےکام لیتی ہیں۔ انہیں علم ہوناچاہیے کہ اگر مجبوری کی بنا پر بھی(جس کاتذکرہ شروع میں آچکاہے) اسقاط کرایا ہوتو اس میں مذکورہ بالا دیت واجب ہوگی اوربقول بعض اہل علم ایک  غلام کاآزاد کرنا بھی واجب ہوگااورچونکہ غلام کادور باقی نہیں رہاہے، اس لیے اس کےعوض میں دوماہ کےلگاتارروزے رکھنا ہوں گے۔واللہ اعلم

یہ گزارشات تواصل مسئلہ سےمتعلق تھیں، خواتین اسقاط کرانے کےلیے بعض دوسرے اسباب بھی پیش کرتی ہیں،جیسے،نکاح سےپہلے زنا کی بنا پرحمل قرار پاگیا اور اب عورت بدنامی سےبچن کےلیے بچہ ضائع کرناچاہتی ہے،یعنی قصور اپنا لیکن ایک معصوم کوبلا وجہ قتل کیاجائے۔

ایسی عورت جس سےزبردستی بدفعلی کی گئی اورجس کےنتیجے میں حمل قرارپاگیایہ عورت اس حمل سےسخت کراہت کرتی ہے لیکن سوچنے کی بات ہےکہ اس میں ہونے بچے کیا قصور ہے۔ فرض کیجیے: آپ کی گود میں کوئی دودھ پیتا بچہ ڈال کربھاگ جاتاہے توکیا آپ اس بچے کی جان بچانے کی کوشش کریں گےیااسے کسی ندی نالے میں بہا کربھاگنے کی کوشش کریں گے۔

ایسی عورت اگر اس حمل سے اتنی ہی متنفرہےتوبچے کی ولادت کےبعد کسی ایسے شخص کےسپرد کردے جواسے گود لینے کوتیار ہو۔اورہرمعاشرے میں  بہت سےایسے بےاولاد جوڑے  ہوتےہیں جوکسی بھی بچے کوگود لینے کےلیے تیار ہوتےہیں۔ وہ فوسٹر پیرنٹ(پرورش کی غرض سےگود لینے والے ماں باپ)کی حیثیت سےیہ ذمہ داری سبنھال سکتےہیں جس میں وہ عنداللہ ماجور ہوں گے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

متفرق مسائل،صفحہ:414

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ