سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) تعمیر مساجد میں مال زکاۃ خرچ کرنا

  • 23326
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 697

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعمیر مساجد میں مال زکاۃ خرچ کرنا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواباً عرض ہےکہ زکاۃ کےآٹھ مصارف سورہ توبہ میں آیت نمبر60 میں بتائے گئےہیں، جن مساجد یاخیراتی کام شامل نہیں ہیں لیکن زکاۃ کاایک مصرف (فی سبیل اللہ) مفسرین وفقہاء کی طبع آزمائی کاموضوع رہاہے۔

فی سبیل اللہ سےکیا مراد ہے؟

امام قرطبی ﷫ اپنی مایہ ناز تفسیر میں ذکر کرتےہیں کہ فی سبیل اللہ کی اصطلاح جہاد کےساتھ مخصوص ہے، اس لیے فی سبیل اللہ سے مراد مجاہدین کی اعانت ،جہاد کی تیاری اورجہاد سےمتعلقہ امورہیں اوریہی مذہب فقہائے اربعہ کاہے۔ امام احمد﷫ اوراحناف میں سے امام محمدِ﷫ نےفی سبیل اللہ میں حج کوبھی شامل   رکھا ہے۔بطور دلیل ان دوروایات کوپیش کیاجاتاہے:

حضرت ابولاس سےمنقول ہےکہ نبی ﷺ نےہمیں صدقے کےانٹوں پرحج کےلیے سوار کرایا۔

حضرت معقل بن یسار سےمنقول ہےکہ رسول اللہﷺ نےارشادفرمایا:’’حج فی سبیل اللہ میں سے ہے۔،،

ایک اورحدیث میں نبی ﷺ نےعورتوں کےلیے حج وعمرہ کوجہاد قرار دیا۔

ان روایات کی بنا پر امام احمد محمد کےنزدیک نادار مسلمان زکاۃ کی رقم سے حج کےلیے استفادہ کرسکتےہیں۔

اکثر فقہاء اور مفسرین نےاسلام کی دعوت وتبلیغ کوجہاد کی شکل قرار دیتے ہوئے مبلغین،داعی حضرات اورمدارس کےاساتذہ وطلبہ کی اعانت زکاۃ فنڈ میں سے ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

مفسرین میں سے امام فخرالدین رازی لکھتےہیں:

اورمعلوم ہوناچاہیے کہ فی سبیل اللہ کی عبارت بظاہر مجاہدین تک محدود نہیں ہے اور اسی لیےقفال نےاپنی تفسیر میں بعض فقہاء سےیہ بات نقل کی ہےکہ صدقات کا خیراتی کاموں ، جیسے مردوں کی تکفین، قلعوں کابنانا اورمساجد کی تعمیر میں صرف کرناجائز ہے کیونکہ فی سبیل اللہ ایک عام لفظ ہےاوران تمام باتوں پرحاوی ہے۔(مفاتیح الغیب:2؍681)

ابن قدامہ، المغنی میں لکھتےہیں:

یہ جائز نہیں ہےکہ زکاۃ کی رقم ان چیزوں میں صرف کی جائے جن کاذکراللہ تعالیٰ نے نہیں کیا، جیسے مساجد کی تعمیر، پل اورپانی کی سبیلیں بنانا،سڑکیں ٹھیک کرنا، سیلاب کےپانی کوروکنے کےلیے بندباندھنا، مردوں کی تکفین ،مہمانوں کی آؤبھگت اور ایسی ہی اطاعت کی وہ تمام چیزیں جن کاذکر ا للہ تعالیٰ نے نہیں کیا۔ حضرت انس ﷜ اور حسن بصری﷫ کہتےہیں: پلوں اورراستوں  میں جوبھی خرچ کیا جائے وہ صدقہ ہی ہےلیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: بےشک صدقات فقراء ومساکین کےلیے ہیں-(الآیہ) آیت کےشروع میں لفظ اِنَّماَ سےحضرواثبات دونوں ہوجاتےہیں،یعنی زکاۃ کامال انہی آٹھ اصناف ہی پرخرچ کیاجاسکتاہے، دوسروں پرنہیں۔(المغنی :2؍667 )

فقہائے احناف کےنزدیک چونکہ زکاۃ ایسے ہی لوگوں کودی جا سکتی ہےجن میں مال زکاۃ کامالک بننے کی صلاحیت ہو، اس لیے وہ عام خیراتی کاموں میں زکاۃ کوصرف کرناجائز نہیں سمجھتے۔فتاویٰ ہندیہ میں مرقوم ہے:

زکاۃ سےمسجد، پل اور سرائے کی تعمیر، سڑکوں کی مرمت،نہروں کی کھدائی،حج اورجہاد میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اورنہ ایسی چیزوں ہی میں خرچ کیا جاسکتاہےجس میں مالک بننے کی صلاحیت نہ ہو۔

شرط تملیک کی بنا پرفقہائےاحناف مدراس وغیرہ میں مال زکاۃ خرچ کرنے کےلیے یہ حیلہ روارکھتےہیں کہ پہلے غریب طلبہ کوزکاۃ کی رقم کامالک بنایا جاتا ہےاورپھر ان سےمدرسہ کےلیے رقم ہبہ کرلی جاتی ہےلیکن اس حیلے کی چنداں ضرورت نہ تھی کہ آیت مذکورہ میں حرف لام(للفراء ) لام تملیک کےمعنی میں نہیں بلکہ زکاۃ کےمصرف کےبیان کےلیے آیاہے۔

الازہرکےعلماء میں مفتی عبدالمجید سلیم اوربعض معاصر علماء نے قفال مروزی کی رائے کواختیار کرتےہوئے لفظ فی سبیل اللہ کوکافی وسعت دی ہے اورتمام خیراتی کاموں حتی کہ مساجد اورہسپتالوں کی تعمیر کوبھی’’فی سبیل اللہ،، میں شمار کیاہے۔

غور طلب بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آٹھ مصارف کاذکر کیاجانا خود اس بات کی دلیل ہےکہ زکاۃ مخصوص مدات ہی میں صرف کی جا سکتی ہے،وگرنہ فی سبیل اللہ میں بعض وہ امور بھی آجاتےہیں جوان آٹھ مصارف میں شامل ہیں، جیسے مؤلفۃ القلوب( وہ لوگ جنہیں اسلام میں رغبت دلانے کےلیے یااسلام قبول کرنے کےبعد بطور اعانت مدد دی جاتی ہے۔) صحیح مسلم میں مروی ہےکہ عبدالمطلب بن ربیعہ اورفضل بن عباس نےرسول اللہﷺ سےدرخواست کی کہ مال زکاۃ کی تحصیل پرہم کومقرر کردیں تاکہ ہم بھی اس کام میں عوض کچھ فائدہ حاصل کرسکیں تورسول اللہﷺ نےفرمایا:’’ مال زکاۃ اوساخ الناس، یعنی لوگوں کامیل کچیل ہےاورمحمدﷺ اورآل محمدﷺ کےلیے جائز نہیں۔،،

(صحیح مسلم ، الزکاۃ، حدیث :1072)

 اس سےبھی معلوم ہوا کہ کہ سادات بنوہاشم کی ضروریات کوپورا کرنا فی سبیل ا للہ میں داخل تھا لیکن رسول اللہﷺ نےانہیں اس میں داخل نہیں کیا،یہی بات مساجد کی تعمیر کےبارے میں کہی جاسکتی ہےکہ لوگوں کا میل کچیل مساجد کی تعمیر پرخرچ نہیں کرنا چاہیے، پھر اس بات سےبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغربی ممالک میں مساجد کی تعمیر پراچھی خاصی رقم صرف ہوجاتی ہےاوراگر زکاۃ کی رقوم مساجد پرصرف کی جانےلگیں تو پھر فقراء ومساکین اورمختاجوں کےلیے کچھ باقی نہ رہےگا۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان ممالک میں مسجد کےایک گنبد یامینار کی تعمیر پرپچاس ساٹھ ہزار پونڈ بآسانی خرچ ہوجاتےہیں لیکن یہی رقم اگر پاک وہند یاافریقہ کےفقراء ومساکین پرخرچ کی جائے توپچاس ساٹھ خاندان ایک سال کےلیے دست سوال دراز کرنے سےبچ سکتے ہیں، اس لیے ہماری رائے میں فی سبیل اللہ کےالفاظ کواتنی ہی وسعت دینی چاہیے کہ جس یہ ا لفاظ متحمل ہیں، یعنی اسے جہاد ہی سے خاص رکھا جائے کہ جس میں جہاد بالسیف، باللسان اور بالقلم تینوں انواع شامل ہیں۔

قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ میں مساجد کی تعمیر کی فضیلت وثواب پراسی لیے ابھارا گیاہے تاکہ کلمہ گوحضرات زکاۃ کےعلاوہ بھی اللہ کی راہ میں کثرت سے خرچ کریں اورجنت میں اپنے لیے محلات کھڑے کرسکیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

زکاۃ کےمسائل،صفحہ:325

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ