سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) طہارت اور پانی کے احکام

  • 22763
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2625

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

طہارت اور پانی کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کلمہ شہادت کے بعد اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے جو مسلمان اور کافر میں فرق کرنے والی ہے۔ نماز اسلام کا ستون ہے۔ روز قیامت سب سے پہلے اسی رکن کے بارے میں محاسبہ ہو گا۔اگر نماز درست اور مقبول قرارپائی تو اس بندے کے دیگر اعمال بھی درست  قرارپائیں گے۔ اور اگر یہ مردود ہوئی تو دوسرے اعمال بھی مردود ہوں گے۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف انداز میں نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ پر نماز کی اقامت کا حکم دیا ہے اور کسی مقام پر اس کی اہمیت و حیثیت کواجاگر کیا ہے کبھی اس کا اجرو ثواب بیان فرمایا ہے اور کہیں نماز کو صبر کے ساتھ ملا کر دونوں کے ذریعے سے مشکلات ومصائب میں استعانت کا حکم دیا ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھ کی ٹھنڈک انبیاء کا زیور اور نیک بندوں کا شعار ہے۔ علاوہ ازیں نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ نماز انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔نماز کی صحت کا دارومدار اس امر پر ہے کہ نماز حکمی اور حقیقی نجاست سے حسب طاقت پاک و صاف ہواور طہارت کا اہتمام کرے جس کا ذریعہ پانی نہ ہو تو اس کی قائم مقام مٹی ہے۔

فقہائے کرام  رحمۃ اللہ علیہ  کا ہمیشہ سے یہ انداز رہا ہے کہ دینی مسائل میں سب سے پہلے طہارت کے مسائل بیان کرتے ہیں کیونکہ جب کلمہ شہادت کے بعد نماز دیگر ارکان اسلام میں مقدم قرارپائی تو مناسب سمجھا گیا کہ نماز کے مقدمات کا پہلے ذکر ہو۔ ان مقدمات میں طہارت بھی شامل ہے جو نماز کی چابی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

"مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ"

"نماز کی چابی طہارت ہے۔"[1] 

اس کی وجہ یہ ہے کہ حدث و نجاست نماز سے مانع ہے۔ حدث و نجاست ایک تالا ہے جو نا پاک شخص کو لگ جاتا ہے۔جب وہ وضو کرتا ہے تو کھل جاتا ہے۔ طہارت نماز کی اہم ترین شرط ہے اور شرط مشروط سے لازماً مقدم ہوتی ہے۔

طہارت کا لغوی معنی ہر قسم کی گندگی سے پاک و صاف ہونا ہے جب کہ شریعت میں اس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان حکمی اور حقیقی نجاست کو زائل کرے۔

واضح رہے کہ حکمی نجاست تب ختم ہوتی ہے جب کوئی انسان پانی کے استعمال کے ساتھ نیت کو بھی شامل کر لے۔اگر حدث اکبر یعنی غسل واجب ہے تو پورے بدن پر پانی استعمال کرے اور اگر حدث اصغر ہے تو چار اعضاء (چہرہ ہاتھ ،سر اور پاؤں )پر پانی استعمال کرے۔ اگر پانی نہ ہو یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال سے عاجز ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرے۔جس کی تفصیل آگے بیان ہو گی۔"ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اس مقام پر ہمارا مقصد پانی اور اس کی صفات بیان کرنا ہے اور بتانا ہے کہ کس قسم کے پانی سے طہارت حاصل ہو سکتی ہے اور کس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَأَنزَلنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهورًا ﴿٤٨﴾... سورة الفرقان

"اور ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی اتارا۔"[2]

مزید فرمایا:

﴿وَيُنَزِّلُ عَلَيكُم مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُم بِهِ ...﴿١١﴾... سورة الانفال

"اور آسمان سے تم پر بارش برسا رہاتھا تاکہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کردے۔"[3]

طہور وہ پانی ہے جو خود پاک ہواور دوسری چیز کو بھی پاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ اپنی قدرتی صفات کا حامل ہو۔ خواہ آسمان کا پانی ہو جیسے بارش، برف اور اولے ،یا زمین پر جاری ہو۔ جیسے دریا چشمے کنویں اور سمندرکا پانی یا قطروں کی صورت میں ہو جیسے شبنم وغیرہ یہ پانی کی ایسی انواع ہیں جن سے حدث و نجاست زائل ہو جاتی ہیں اور طہارت حاصل ہوتی ہے۔اگر ایسے پانی میں نجاست شامل ہو جانے کی وجہ سے تبدیلی رونما ہو جائےتو اس سے بالا اجماع طہارت حاصل نہ ہو گی البتہ اگر اس قسم کے صاف پانی میں کوئی پاک چیز شامل ہو جائے اور اس کی تین صفات (بو ذائقہ اور رنگت ) میں سے کوئی صفت تبدیل ہو جائے لیکن پانی پر اس کا غلبہ نہ ہو تو اس کے بارے میں اہل علم کی دو رائے ہیں۔ صحیح رائے یہی ہے کہ ایسے پانی سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:"اگر قلیل یا کثیر مقدار میں کسی پاک چیز کی ملاوٹ سے پانی میں تغیر واقع ہو جائے مثلاً:اشنان صابن بیری کے پتے خطمی مٹی یا آٹے وغیرہ کی ملاوٹ ہو جائے یا کسی ایسے برتن میں پانی رکھ دیا گیا ہو جس میں بیری کے پتوں یا خطمی مٹی وغیرہ کے اثرات ہوں اوروقت گزرنے کے ساتھ پانی میں رنگت کی تبدیلی رونما ہو جائے اور اس پر پانی کا اطلاق بھی ہوتا ہو تو ایسے پانی سے متعلق علماء کے دو قول ہیں۔[4]

پھر شیخ موصوف رحمۃ اللہ علیہ  ہر ایک فریق کے دلائل نقل کرتے ہیں اور آخر میں اس قول کو راجح اور معتبر قراردیتے ہیں کہ اس قسم کا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے اور وجہ ترجیح یہ بیان کرتے ہیں ۔

کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم ...﴿٤٣﴾... سورة النساء

"اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی ضروری حاجت سے (فارغ ہو کر)آیا ہویا تم نے عورتوں  سے ہم بستری کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو۔ پھر اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔"[5]

اللہ تعالیٰ کے فرمان (فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً)میں ماءکا کلمہ نکرہ ہے جو نفی کے سیاق میں واقع ہے لہٰذا جس پر پانی کا اطلاق ہوتا ہو اس سے طہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ پانی کی متعدد اقسام ہو جانے سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔[6]

جب پانی موجود نہ ہو یا موجود ہو۔ لیکن اس کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے مٹی کو اس کا قائم مقام قراردیا ہے جس کا طریقہ استعمال سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں بیان کر دیا گیا ہے۔ جس کا ذکر تیمم کے باب میں تفصیل سے ہو گا۔ ان شاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یوں لطف و کرم فرمایا کہ تیمم کا حکم دے کر ان کی مشکل کو آسان کر دیا۔ ارشاد ربانی ہے۔

﴿وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفورًا ﴿٤٣﴾... سورة النساء

"اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی حاجت سے آیا ہو۔یاتم نے عورتوں  سے ہم بستری کی ہو۔ پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو۔ پھر اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔"بے شک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"[7]

ابن ہبیرہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں "علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ پانی میسر ہو جانے کی صورت میں اس سے طہارت حاصل کرنا ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر نماز کی ادائیگی فرض ہے البتہ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو مٹی سے تیمم کر لیا جائے۔

 کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا...﴿٦﴾... سورة المائدة

"پھر تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔"[8]

مزید فرمایا:

﴿وَيُنَزِّلُ عَلَيكُم مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُم بِهِ ...﴿١١﴾... سورة الانفال

اور آسمان سے تم پر بارش برسا رہا تھا تاکہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کردے۔"[9]

یہ امر اسلام کی عظمت کی دلیل ہے جو انسان کو حسی اور معنوی نجاست سے پاک و صاف رکھنے والا دین ہے۔اسی طرح یہ امر نماز کی عظمت کا بھی شاہد ہے کیونکہ نماز کی ادائیگی دونوں قسم کی طہارت حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔

واضح رہے کہ معنوی طہارت سے مراد شرک سے پاک ہونا ہے جو عقیدہ توحید اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کی بدولت میسر ہوتی ہے۔ اور طہارت حسی سے مراد حدث و نجاست سے پاک وصاف ہونا ہے جو پانی یا اس کے قائم مقام مٹی سے حاصل ہوتی ہے۔

جان لیجیے! جب پانی اپنی قدرتی حالت میں ہو اور اس میں کوئی چیز گرنہ جائے تو ایسا پانی بالا جماع پاک ہے اور اگر پانی میں نجاست گر جائے جس کی وجہ سے اس کی تین صفات (بو،ذائقہ اور رنگت )میں سے کوئی ایک صفت بدل گئی ہوتو یہ پانی بالاجماع ناپاک ہے جس کا استعمال ناجائز ہے۔

اگر پانی میں کوئی پاک چیز گرجائے مثلاً:درختوں کے پتے صابن اور اشنان وغیرہ نیز اس چیز کا پانی پر غلبہ نہ ہوتو ایسے پانی سے تعلق اہل علم میں اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ ایسا پانی پاک ہے اور اس سے حدث و نجاست زائل کر کے طہارت وپاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے۔

اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ پانی کی دو قسمیں ہیں۔

1۔پاک پانی جس سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ یہ وہ قسم ہے جو اپنی فطری اور قدرتی حالت میں ہو یا اس میں کسی پاک چیز کی ملاوٹ ہوگئی ہو۔ بشرطیکہ اس چیز کا ایسا غلبہ نہ ہو کہ اس مرکب کو پانی کانام نہ دیا جا سکے۔

2۔ناپاک پانی جس کا استعمال جائز نہیں۔ وہ نہ حدث کو ختم کرتا ہے اور نہ نجاست دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ ایسا پانی ہے جو نجاست گر جانے کی وجہ سے متغیر ہو گیا واللہ اعلم۔


[1]۔سنن ابی داود الطہارۃ باب فرض الوضو ء حدیث :61وجامع الترمذی الطہارۃ باب ماجاء مفتاح الصلاۃ الطہور۔حدیث:3۔

[2]۔الفرقان:25۔48۔

[3]۔الانفال:8/11۔

[4] ۔اشنان اور خطمی دونوں پودے ہیں جن کے پتے پانی میں ابال لیے جاتے ہیں۔پھر اس پانی کو اچھی طرح صفائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔

[5]۔المائدہ:5/6۔

[6]۔مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  21/24۔25۔

[7]۔النساء:4/43۔

[8]۔المائدہ:5/6۔

[9]۔الانفال:8/11۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 23

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ