سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) تعظیماً کھڑے ہونا

  • 22434
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2811

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی آدمی کے لئے تعظیما کھڑا ہونا ٹھیک ہے کھڑا نہ ہونے پر قرآن و حدیث کا کیا حکم ہے؟ (عارف شہزاد۔ گجرات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی بھی شخص کے لئے اپنی جگہ پر تعظیما کھڑا ہونا درست نہیں ہے۔ ہاں آگے بڑھ کر استقبال کریں تو اس کی اجازت ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ (ابوداؤد 5229، ترمذی 2764)

ابو مجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک گھر میں داخل ہوئے اس گھر میں ابن عامر اور ابن الزبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے تو ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن الزبیر بیٹھے رہے۔ ابن عامر کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹھ جاؤ بےشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ بندے اس کے لئے فرماں بردار ہو کر کھڑے ہو جائیں تو وہ اپنا گھر آگ میں بنا لے۔(شرح السنۃ 12/395 مشکل الآثار 2/38،39)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب و پیارا نہ تھا اور جب صحابہ آپ کو دیکھ لیتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قیام کو برا سمجھتے ہیں۔(ترمذی 2763، شرح السنۃ 12/294)

ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے لئے قیام کرنا درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ساری کائنات سے زیادہ محبوب تھے ان کے لئے بھی قیام نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے تھے اور آپ نے اس کے لئے وعید بھی بیان کی ہے تو پھر کوئی ٹیچر، پروفیسر، وکیل، جج یا وزیر و بریگیڈئیر اور جرنیل کس طرح اس قیام کے مستحق ہو سکتے ہیں جو لوگ کسی کے لئے قیام نہ کرنے والے کو برا کہتے ہیں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات پر غوروخوض کرنا چاہیے اور شرع کی مخالفت سے باز رہنا چاہیے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:33

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ