سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(544) دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کا حکم

  • 2212
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 3619

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کا کیا حکم ہے،جواب دے کر مشکور ہوں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعا کرنا ایک مشروع عبادت ہے، اور دعا میں ہاتھ اٹھانا عاجزی وانکساری کی علامت ہے، لیکن دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے حوالے سے منقول تمام آثار ضعیف ہیں،جنہیں امام البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

منقول ضعیف آثار کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

حدیث نمبر ۱:

’’حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عِيسَى الْجُهَنِيُّ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ لَمْ يَحُطَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى فِي حَدِيثِهِ لَمْ يَرُدَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهِ وَهُوَ قَلِيلُ الْحَدِيثِ وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ النَّاسُ وَحَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيُّ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ‘‘

ترجمہ:

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اپنے ہاتھ اٹھاتے تو ان کو اپنے منہ پر پھیرنے سے پہلے نیچے نہ چھوڑتے۔

تنقید:

یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں حماد بن عیسی بن عبیدہ جمنی بہت ہی ضعیف ہے اس کے متعلق محدثین کے فیصلے سنیے: امام ابو حاتم نے اسے ضعیف الحدیث کہا۔ امام ابو دا ئود نے اسے ضعیف اور منکر الحدیث کہا۔ امام حاکم اور امام نقاش نے کہا کہ یہ امام ابن جریح اور امام جعفر صادق سے موضوع (جھوٹی) حدیثیں بیان کرتاتھا۔ امام ابن حبان نے کہا کہ وہ ابن جریح اور عبدا لعزیز بن عمر بن عبدالعزیز سے تبدیل شدہ (جھوٹی) حدیثیں بیان کرتا ہے۔ جن کو بطور دلیل پیش کرنا جائز نہیں۔ امام دار قطنی نے بھی اسے ضعیف کہا۔ امام ابن ماکولانے کہا کہ محدثین نے اسکی حدیثوں کو ضعیف قرار دیاہے۔

میزان الاعتدال جلد نمبر ۱ ص ۵۹۸ و تہذیب التہذیب جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۱۹۱۸۔ لہذا یہ حدیث قابل حجت نہیں۔

حدیث نمبر ۲:

’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ‘‘ سنن ابی دائود حدیث نمبر 1275 باب الدعا۔ کتاب الصلات

ترجمہ:

سائیب بن یزید اپنے باپ یزید بن سعید سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کو منہ پر پھیرتے تھے۔

تنقید:

یہ حدیث بھی سخت ترین ضعیف ہے جو قابل حجت نہیں۔ اسکے ضعیف ہونے کےدو سبب ہیں۔

نمبر (۱)

اس کی سند میں ایک راوی حفص بن ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص مجہول بلکہ فرضی راوی ہے کیونکہ کتب تاریخ سے ھاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کا کوئی ایسا بیٹا نہیں ملتا جسکا نام حفص ہو۔

دیکھیے: تہذیب التہذیب جلد ۲ ص ۴۲۰۔ ۴۲۱۔

امام ذھبی نے بھی اسے مجہول لکھا ہے۔

دیکھیے: میزان الاعتدال جلد ۱ ص ۵۶۹۔

نمبر (۲)

اس کی سند میں اس حفص کا شاگرد عبداللہ بن لہیہ ضعیف راوی ہے اس کاگھر جلنے کی وجہ سے اس کی اکثر کتب جل گئی تھیں اور اس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ بات بھول جاتا تھا جس طرح لوگ کہتے اسی طرح حدیث بیان کر دیتا تھا۔ جن محدثین نے ان کا گھر اور کتب جلنے سے پہلے ان سے حدیثیں سنیں اور لکھیں وہ صحیح ہیں۔ جیسے عبداللہ بن دھب، عبداللہ بن مبارک، عبداللہ بن یزید، مقرئ، عبداللہ بن مسلمہ قعنبی ان کا سماع تو اس سے صحیح ہے یعنی ان کی روایات اس سے صحیح ہیں اور دوسروں کی نہیں کیونکہ پھر یہ اپنے حافظے کی خرابی کی وجہ سے سچی اور جھوٹی ہمہ قسم کی روایات بیان کرتا رہتا تھا۔ اور یہ حدیث اس نے ایک مجہول بلکہ ایک فرضی راوی حفص بن ھاشم بن عتبہ بن ابی وقاص سے بیان کی ہے۔ لہذا یہ حدیث بھی مذکورہ بالا وجوہ سے مردود ہے مقبول نہیں۔ عبداللہ بن لہیعہ کا ترجمہ دیکھو: میزان الاعتدال ج ۲ ص ۴۷۵ تا ۴۸۳ و تہذیب التہذیب جلد ۵ ص ۳۷۳ تا ۳۷۹۔

حدیث نمبر ۳:

’’حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَا حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ حَسَّانَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَوْتَ اللَّهَ فَادْعُ بِبَاطِنِ كَفَّيْكَ وَلَا تَدْعُ بِظُهُورِهِمَا فَإِذَا فَرَغْتَ فَامْسَحْ بِهِمَا وَجْهَكَ‘‘سنن ابن ماجۃ بَاب مَنْ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ۔ ص ۸۴ قیام اللیل ص ۳۳۶ باب مسح الرجل وجھہ بیدیہ بعد فراغہ من الدعاء لمحمد بن نصر مروزی و مستدرک حاکم ج۱۱ ص ۵۳۶ والمعجم الکبیر ج ۳ ص ۹۸ بحوالہ ارواءالغلیل ج ۲ ص ۸۷۹

ترجمہ:

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو اللہ تعالی سے دعا کرے تو اپنے ہاتھوں کو ہتھیلیوں سے کیا کر یعنی سیدھے ہاتھوں سے اور ان کی پشتوں سے نہ کیا کر یعنی الٹے پہاتھوں سے اور جب تو دعا سے فارغ ہو تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے منہ پر پھیر لیا کر۔

تنقید:

یہ حدیث موضوع (جھوٹی) ہونے کی وجہ سے مردود ہے مقبول نہیں کیونکہ اس کی سند میں صالح بن حسان بالاتفاق ضعیف ترین اور متروک راوی ہے۔ اسکے متعلق محدثین کے فیصلے سنیے۔ اما م احمد بن حنبل اور امام یحی بن معین نے کہا کہ وہ ضعیف الحدیث ہے بلکہ کچھ بھی نہیں۔ امام بخاری اور امام ابو حاتم نے اسے منکر الحدیث کہا۔ امام نسائی نے اسے متروک الحدیث کہا۔ امام ابو داؤد نے اسے ضعیف کہا نیز منکر الحدیث کہا۔ اما م ابن حبان نے کہا کہ وہ طوائف کے گانے اور قوالیاں سنتا تھا اور ثقہ راویوں سے موضوع حدیثیں بیان کرتا تھا۔ یعنی خود گھڑ کے ان کی طرف منسوب کرتا تھا۔ امام دار قطنی نے بھی اسے ضعیف کہا۔ امام ابو نعیم اصبہانی نے اسے منکر الحدیث اور متروک کہا۔ امام خطیب بغدادی نے کہا کہ تمام محدثین کا اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ دیکھو: تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۳۸۵ و میزان الاعتدال ج ۲ ص ۲۹۱- ۲۹۲۔

تنبیہ:

امام بخاری فرماتے ہیں کہ جس راوی کے متعلق میں جرح کا لفظ منکر الحدیث استعمال کروں وہ اتنا ضعیف ہوتا ہے کہ اس سے روایت کرنا جائز اور حلال نہیں۔ دیکھو میزان الاعتدال ج ۱ ص ۶۔ ترجمہ ابا بن جبلہ ابی عبدالرحمن کوفی۔ لہذا یہ حدیث بھی جھوٹی ہونے کی وجہ سے مردود ہوئی مقبول نہیں۔

حدیث نمبر 4:

’’عن ابن عباس عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا سالتم اللہ فاسئلوہ ببطون اکفکم ثم لاتردوھا۔ حتی تمسحوا بھا وجوھکم۔ ‘‘ قیام اللیل لمحمد بن نصر مروزی ص 1236

ترجمہ:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اللہ تعالی سے دعا کرو تو اپنی ہتھیلیوں سے کرو پھر ان کو نیچے نہ چھوڑو جب تک اپنے چہروں پر نہ پھیر لو۔

تنقید:

یہ حدیث بھی جھوٹی ہے کیونکہ اس کی سند میں ابن عباس کے شاگرد محمد بن کعب قرفلی سے بیان کرنے والا عیسی بن میمون قرشی وضاع (حدیثیں گھڑنے ولا) راوی ہے۔ اس کے متعلق محدثین کے فیصلے سنیے۔

امام عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ میں نے عیسی بن میمون سے پوچھا کہ ان حدیثوں کی کیا حقیقت ہے جن کو تو قاسم بن محمد ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتا ہے؟ تو اس نے مجھے جواب دیا کہ میں دوبارہ ان کو نہیں بیان کروں گا۔ امام بخاری نے اسے منکرالحدیث کہا "یعنی اس سے روایت کرنا حلال نہیں جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے" امام ابن حبان نے کہا کہ یہ کئی حدیثیں بیان کرتا ہے جو تمام موضوع (جھوٹی) ہیں۔ امام یحی بن معین نے کہا کہ اس کی کوئی حدیث بھی کسی کام کی نہیں۔ ایک دفع یہ بھی کہا کہ لا باس بہ (یعنی اس سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں)۔ امام محمد بن کعب نے کہا یہ ضعیف راوی ہے، کسی کام کا نہیں۔ امام فلاس نے کہا یہ متروک ہے۔ امام ابن عدی نے کہا کہ اسکی عام مرویات کی کوئی بھی متابعت نہیں کرتا۔ امام نسائی نے کہا یہ ثقہ نہیں۔ امام یحی بن معین نے کہا کہ اس نے محمد بن کعب قرظی سے کوئی حدیث بھی نہیں سنی اور یہ کسی کام کا نہیں۔

میزان الاعتدال ج 3 ص 325-326، و تہذیب التہذیب ج 8 ص 236 برحاشیہ و تقریب التہذیب ج 2 ص 102۔ لہذا یہ حدیث بھی جھوٹی اور مردود ہوئی مقبول نہیں۔

حدیث نمبر 5:

’’قال ابوداؤد حدثنا عبداللہ بن مسلمۃ نا عبدالملک بن محمد بن ایمن عن عبداللہ بن یعقوب بن اسحاق عن من حدثہ عن محمد بن کعب القرظی حدثنی عبداللہ بن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال۔ لا تستروا الجید من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما ینظرنی النار سلوا للہ ببطون اکفکم ولا تسالوہ بظہورھا۔ فاذا فرغتم فامسحوا بھا وجوھکم قال ابوداؤد روی ھذا الحدیث من غیر وجہ عن محمد بن کعب کلھا واھیتہ وھذا الطریق امثلھا وھو ضعیف ایضا۔ ‘‘سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج 1 ص 553 باب الدعا وسنن بیھقی ج 2 ص 212۔

ترجمہ:

امام ابو داؤد نے کہا ہمیں عبداللہ بن مسلمۃ نے بیان کیا۔ اس نے کہا ہمیں عبدالملک بن محمد بن ایمن نے بیان کیا۔ اس نے عبداللہ بن یعقوب بن اسحاق سے بیان کیا اس نے اس سے بیان کیا جس نے اسکو محمد بن کعب قرظی سے بیان کیا۔ اس نے کہا مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دیواروں پر پر دے نہ ڈالو جس نے اپنے بھائی کی مخصوص کتاب یا خط میں دیکھا تو گویا کہ اس نے جہنم کی آگ میں دیکھا۔ تم اللہ تعالی سے اپنی پتھیلیوں کے ذریعے دعا کرو یعنی سیدھے ہاتھ اور ان کی پشتوں کے ذریعے دعا نہ کرو یعنی الٹے ہاتھ پھر جب تم دعا سے فارغ ہونے لگو تو ان کو اپنے چہروں پر پھیرو۔ امام ابو داؤد نے کہا کہ یہ حدیث محمد بن کعب قرظی سے کئی سندوں سے مروی ہے جو تمام ضعیف ہیں۔ صرف یہی سند کچھ کچھ بہتر ہے۔ اور یہ بھی ضعیف ہے۔

تنبیہ:

امام ابو داؤد نے تو دوسری سندوں کی نسبت کچھ بہتر کہنے کے بعد اسے ضعیف کہا۔ لیکن میں اسے درج ذیل وجوہ کی بناء پر باطل کہتا ہوں۔

نمبر1۔

اس کی سند میں عبدالملک بن محمد بن ایمن بن حجازی جو راوی ہے اسے امام ابوالقطن بن حسان نے مجہول الحال کہا اور امام ابو داؤد نے اس سے صرف یہی ایک منقطع حدیث بیان کی ہے۔ اور اسے ضعیف کہا ہے۔ دیکھو تہذیب التہذیب ج 6 ص 418-419۔

نمبر2:

اس کی سند میں عبداللہ بن یعقوب بن اسحاق کے استاد محمد بن کعب قرظی سے بیان کرنے والا راوی مجہول العین اور مجہول الحال ہے جسکا کوئی علم نہیں کہ وہ کون اور کیسا ہے۔ اس میں دو راوی مجہول ہوئے جس کی وجہ سے یہ حدیث بھی مردود ہوئی مقبول نہیں۔

علامہ البانی نے لکھا ہے کہ اس محمد بن کعب قرظی کا جو مجہول شاگرد ہے ممکن ہے کہ صالح بن حسان ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مجہول راوی عیسی بن میمون قرشی ہو جن پر تفصیلی جرح مذکور ہوئی۔ تب بھی یہ حدیث باطن اور مردود ہوئی جو ہرگز قابل حجت نہیں۔

علامہ ناصر الدین البانی مد ظلہ العالی نے ارواء الغلیل ج 2 ص 180 پر مستدرک حاکم ج 4 ص 270 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ امام حاکم نے ابن عباس والی حدیث کئی اسناد سے اس طرح ذکر کی ہے۔

محمد بن معاویۃ ثنا معارف بن زیاد المدینی قال سمعت محمد بن کعب القرظی یعنی محمد بن معاویہ نے کہا کہ ہمیں مصادف بن زیاد المدینی نے بیان کیا کہ اس نے کہا کہ میں نے محمد بن کعب قرظی سے سنا وہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں الخ۔

البانی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ محمد بن معاویۃ کو امام دارقطنی امام یحی بن معین اور امام ابو طاہر مدنی نے بھی کذاب (بڑاجھوٹا) کہا ہے نیز یحی بن معین، علی بن مدینی، عمرو بن علی، خلیلی، ابن قانع نے اسے ضعیف غیر ثقہ اور متروک بھی کہا۔ امام بخاری نے کہا اس کو احادیث کی متابعت نہیں کی گئی۔ امام ابو داؤد نے کہا یہ کسی کام کا آدمی نہیں۔ امام زکریا ساجی۔ نے کہا کہ جیسے لوگ کہتے یہ ویسے ہی حدیثیں بیان کردیتا۔ یعنی اس کا دماغی توازن صحیح نہیں تھا۔ اس لیے ابو زرعہ نے اس سے روایت کرنا چھوڑ دیا تھا۔ دیگر محدثین کے نزدیک بھی اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اس لیے یہ اسناد و متون میں غلطیاں کرتا تھا امام دارقطنی اور امام طاہر مدنی نے اسے کذاب کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ جھوٹی حدیثیں بناتا تھا۔ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ میں نے اس کی موضوع (جھوٹی) حدیثیں دیکھیں۔ امام صالح بن محمد نے کہا محدثین نے اس کی حدیثیں چھوڑ دیں۔ نیز یہ بھی کہا کہ اس کی سب حدیثیں منکر ہیں۔ اس کا ترجمہ دیکھیں: تہذیب التہذیب ج 9 ص 464-465 و میزان الاعتدال ج 4 ص 44-45 اور اس کا استاد مصارف بن زیاد مدینی مجہول ہے۔ دیکھو میزان الاعتدال ج 4 ص 18 ۔ لہذا یہ حدیث بھی مردود ہوئی۔

ضعیف احادیث جتنی بھی ہوں وہ مل کر حسن نہیں بن سکتیں۔ علاوہ ازیں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے متعلق جتنی بھی صحیح یا حسن احادیث مروی ہیں ان میں سے کسی حدیث میں بھی اختتام دعا پرمنہ پر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں اور نہ ہی معتبر سند سے کسی صحابی کا عمل ثابت ہے۔ نہ عام دعا میں اور نہ ہی قنوت نازلہ اور قنوت وتر میں۔ لہذا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے سے بچنا چاہیے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ