سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(63) شادی کے لیے اخراجات کا مسئلہ

  • 21403
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 866

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گھر والے شادی کرنے کی بات کرتے ہیں مگر میرے پاس اتنے اخراجات نہیں کیونکہ رواج کے مطابق لڑکی والوں کو بھی زیورات یا نقد رقم کی صورت میں مدد کرنی ہوتی ہے کیا یہ بات شرعی ہے؟ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زرہ سے دلیل لیتے ہیں۔ (ایک سائل۔ PAF سرگودھا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اپنے آپ کو زنا و بدکاری سے بچانے کے لئے نکاح کرنا چاہیے کیونکہ نکاح کرنے سے انسان کی نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت ہو جاتی ہے مسلمان آدمی غلط نظروں اور گناہ سے بچ سکتا ہے اسلام کے اندر نکاح کرنا انتہائی آسان ہے۔ دنیا کے رسوم و رواج سے دور رہ کر اگر آپ اسلامی نکتہ نظر سے سوچیں تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے آپ کا فقر اور تنگدستی ممکن ہے کہ اللہ نکاح کے ذریعے دور کر دے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم إِن يَكونوا فُقَراءَ يُغنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَاللَّهُ و‌ٰسِعٌ عَليمٌ ﴿٣٢﴾... سورةالنور

"تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کرو اور اپنے نیک غلام اور باندیوں کا بھی اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت والا علم والا ہے۔"

یعنی محض غربت اور تنگدستی نکاح میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ تنگ دستی، فقر اور محتاجی کو اپنے خاص فضل و کرم سے وسعت اور فراخی میں بدل دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔

1۔ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔

2۔ مکاتب غلام جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے۔

3۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔

(ترمذی، ابواب فضائل جھاد، باب ما جاء فی المجاھد والمکاتب والنکاح، عبدالرزاق 5/259 (9542) مستدرک حاکم 2/217، 169 سنن النسائی، کتاب الجھاد، باب فضل الروحۃ فی سبیل اللہ عزوجل (3120) و کتاب النکاح، باب معونۃ اللہ الناکح الذی یرید العفاف (3218) سنن ابن ماجہ، کتاب العتق، باب المکاتب (2518) صحیح ابن حبان (1653 موارد) مسند ابی یعلی 11/10 شرح السنہ 9/7 عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)

سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس لئے آئی ہوں کہ میں آپ کے لئے اپنے نفس کو ہبہ کروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اوپر سے نیچے تک نظر دوڑائی پھر اپنا سر نیچے کر لیا جب اس عورت نے دیکھا کہ آپ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو بیٹھ گئی تو آپ کے صحابہ کرام میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں تو اس کو میرے ساتھ بیاہ دیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا اپنے گھر والوں کی طرف جا دیکھ تو کوئی چیز پاتا ہے وہ چلا گیا پھر واپس آیا اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے کچھ نہیں پایا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تلاش کر اگرچہ ایک لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ وہ جا کر پھر واپس آ گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی لیکن میری یہ ازار (تہہ بند) ہے (سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے پاس اوپر اوڑھنے کے لیے بھی چادر نہ تھی) اس کا آدھا حصہ اسے دوں گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے تہہ بند کے ساتھ کیا کرے گا؟ اگر تو پہنے گا تو اس عورت پر اس میں سے کچھ نہ ہو گا اور اگر یہ عورت پہن لے گی تو تیرے اوپر کچھ نہ ہو گا وہ آدمی بیٹھ گیا۔ یہاں تک کہ اس کی مجلس لمبی ہو گئی وہ پھر کھڑا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منہ پھر کر جاتے ہوئے دیکھا اسے حکم دے کر بلایا گیا جب وہ آیا تو آپ نے کہا تیرے پاس قرآن حکیم میں سے کیا ہے؟ اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں آپ نے کہا تو انہیں اچھی طرح یاد رکھتا ہے۔ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا جا میں نے ان سورتوں کے عوض اس عورت سے تیرا نکاح کر دیا ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب تزویج المعسر (5087) و کتاب الوکالۃ، باب وکالۃ المراۃ لامام فی النکاح (2310)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے شریعت میں لمبے چوڑے اخراجات نہیں ہیں جس صحابی کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اس کے پاس تو سوائے تہہ بند کے کچھ نہ تھا آج کون سا ایسا شخص ہے جس کے پاس کم از کم ایک جوڑا کپڑوں کا نہ ہو اکثریت ایسے لوگوں کی موجود ہے جن کے پاس لباس وافر مقدار میں موجود ہیں۔ رہائش کے لئے گھر موجود ہے۔ اس صحابی سے بڑھ کر معاشی حالت درست ہے۔

لہذا آپ رسومات اور رواجوں سے ہٹ کر سنت نبوی کے مطابق نکاح کروا لیں حق مہر کی بھی شرح میں کوئی مقدار کم یا زیادہ متعین نہیں۔ حسب استطاعت مہر ادا کر دیں۔ بدکاری و فحاشی کے اس سیل رواں میں پاکدامنی اختیار کرنا انتہائی لازمی ہے اور نکاح بدکاری سے بچنے کا بہترین راستہ ہے۔ اس لیے گھر والوں کی بات تسلیم کر کے نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں اور اللہ تعالیٰ مالی مشکلات کو اپنے فضل وکرم سے درست کر دے گا جیسا اوپر گزر چکا ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب النکاح-صفحہ331

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ