سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(87) یوسف النبہانی کون تھا؟

  • 21340
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1645

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علامہ(!)نبہانی کون شخص ہے؟اس کا عقیدہ اور مرتبہ و مقام کیا ہے اس کا مختصر تعارف کرائیں؟(محمد عمران اعظم)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یوسف بن اسماعیل بن یوسف النبہانی الشافعی (متوفی 1350ھ1932،

ایک بدعتی "مولوی"تھا جس نے شواہد الخلق فی الاستغاثہ الخلق جامع کرامات الاولیاءاور الانوار المحمدیہ وغیرہ کتابیں لکھیں علمائے حق میں سے علامہ ابو المعالی محمود شکری آلوسی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1342ھ)نے اس کا رد"غایۃ الامانی فی الرد علی النبہانی " کے نام سے لکھا۔

نیز دیکھئے الجواب الفائق فی الرد علی مبدل الحقائق (تالیف عبد اللہ عبدالرحمٰن بن جبر ین ج1ص9بحوالہ المکتبۃ الشاملہ)

نبہانی مذکور نے کسی محمد بن عبد اللہ بن علوی کے بارے میں لکھا ہے:"آپ کی کرامتوں میں یہ ہے کہ آپ متوسلین میں سے کسی کے پاس بیٹھے تھے کہ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے پھر لوٹے تو آپ کے کپڑوں میں سے پانی ٹپک رہا تھا ان صاحب نے اٹھنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:میرے متوسلین میں سے بعض کا جہاز پھٹ گیا تھا انھوں نے مجھ سے مدد مانگی تو میں نے اس میں اپنا کپڑا لگا دیا حتی کہ ان لوگوں نے اس پھٹن کو درست کر لیا اور جہاز جیسا تھا ویسا ہو گیا۔

(جمال الاولیاء ترجمہ جامع کرامات الاولیاء اشرفعلی تھا نوی ص141،142)

یہ خود ساختہ کرامت صریحاً شرک پر مبنی ہے کیونکہ اس میں اللہ کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو مافوق الاسباب مدد کے لیے پکارا گیا ہے۔

ان بدعقیدہ لوگوں کے رد کے لیے دیکھئے سورۃ النمل (آیت نمبر62)

خلاصہ یہ ہے کہ اہل بدعت کے اس لکھاری نبہانی کی کسی روایت (جس میں وہ منفرد ہو) کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ وہ اپنے عقائد بدعیہ کی وجہ سے ساقط العدالت ہے۔

شیخ شمس الدین الافغانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے یوسف بن اسماعیل النبہانی الفلسطینی کے بارے میں فرمایا:

"كان شاعراً مجيداً وأديباً بارعاً لكنه وثني داعية إلى الشرك والكفر "وهو أحد كبار أئمة القبورية "

"وہ بہترین شاعراور فاضل ادیب تھا لیکن بت پرست شرک اور کفر کی طرف دعوت دینے والا تھا اور وہ قبر پرستوں کے بڑے اماموں میں سے ایک تھا۔(جہود علماء الحنفیہ فی ابطال عقائد القبوریۃ ج1ص432)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔متفرق مسائل-صفحہ288

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ