سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) محدثین کے ابواب : پہلے اور بعد ؟

  • 21323
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 976

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الیاس گھمن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اہلحدیث جو ہیں وہ منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم دیوبندی ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں۔

اور وہ ایک قاعدہ و قانون بتاتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین اپنی احادیث کی کتابوں میں پہلے منسوخ روایات کو یا اعمال کو لائے ہیں پھر انھوں نے ناسخ روایات کو جمع کیا ہے۔کیا واقعی یہ بات درست ہے؟ اور وہ مثال دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر نہ کرنے کی روایات ذکر کی ہیں یعنی رفع الیدین منسوخ ہے اور رفع الیدین نہ کرنا ناسخ ہے اسی طرح محدثین نے پہلےفاتحہ خلف الامام پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں اہل حدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم ناسخ پر۔

کیا الیاس گھمن صاحب نے جو قاعدہ و قانون بیان کیا ہے وہ واقعی محدثین جمہور کا قاعدہ ہے اور دیوبندیوں کا اس قانون پر عمل ہے اور اہل حدیث اس قانون کے مخالف ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔(خرم ارشاد محمدی۔دولت نگر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گھمن صاحب کی مذکورہ کئی وجہ سے غلط ہے تاہم سب سے پہلے تبویب محدثین کے سلسلے میں دس (10)حوالے پیش خدمت ہیں۔

1۔امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے باب باندھا:

"باب من لم ير الجهر ب بسم الله الرحمن الرحيم"

 (سنن ابی داؤد:ص122قبل ح782)

اس کے بعد امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  نے دوسرا باب باندھا:

"باب من جهر بها" (سنن ابی داؤد:ص122قبل ح786)

یعنی امام ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  نے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عدم جہر(سراًفی الصلوٰۃ)والا باب لکھااور بعد میں بسم اللہ بالجہر والا باب باندھا تو کیا گھمن صاحب اور ان کے ساتھی اس بات کے لیے تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قراردیں؟ اور اگر نہیں تو پھر ان کا اصول کہاں گیا؟!

تنبیہ:امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ترک جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہے۔

دیکھئے سنن الترمذی(ص67۔28)قبل ح244،245)

2۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے باب باندھا:

"باب ما جاء في الوتر بثلاث" (سنن الترمذی ص122قبل ح459)

پھر بعد میں "باب ما جاء في الوتر بركعة" کا باب باندھا ۔ (سنن الترمذی قبل ح461)

کیا گھمن صاحب اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی روسے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل وفاعل ہو جائیں گے؟"

3۔امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  نے پہلے کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:

"بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ" ( سنن ابن ماجہ ص48قبل ح317)

اور بعد میں "باب الرخصة في ذلك في الكنيف وإباحته دون الصحاري" یعنی صحراء کے بجائے بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونے کے جواز کا باب باندھا ۔ (سنن ابن ماجہ ص49قبل ح322)

کیا گھمن صاحب !قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو اپنے اصول کی وجہ سے منسوخ سمجھتے ہیں۔؟

4۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات)کے کئی باب باندھے ۔ مثلاً

"باب الذكر في الركوع" (سنن النسائی ص144قبل1047)

اور بعد میں باب باندھا :

"باب الرخصة في ترك الذكر في الركوع"(سنن النسائی ص145قبل1054)

کیا گھمن قاعدے کی روسے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟"

5۔امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج ذیل الفاظ میں لکھا:

"وضع اليمين على الشمال" (مصنف ابن ابی شیبہ 1/390قبل 3933)

اور بعد میں"باب من كان يرسل يديه في الصلاة" یعنی نماز میں ہاتھ چھوڑنے کا باب باندھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص 391قبل 3949)

ان دونوں بابوں میں سے کون سا باب گھمن صاحب کے نزدیک منسوخ ہے؟ پہلا یا بعد والا؟ کیا خیال ہے اب دیوبندی حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کریں گے یا الیاس گھمن صاحب کے اصول کو ہی دریا میں پھینک دیں گے؟

6۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  نے نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے منع والا باب باندھا:

"النهي عن الصَلاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ" (سنن النسائی ص78قبل567) 

اور بعد میں"الرخصة في الصلاة بعد العصر"یعنی عصر کے بعد نماز(نوافل)کی اجازت کا باب باندھا۔(سنن النسائی ص79قبل574)

کیا گھمن صاحب کے اصول سے نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟"

7۔امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  نے تین تین دفعہ اعضائے وضو ء دھونے کا باب باندھا:

"باب الوضوء ثلاثا ثلاثا" (سنن ابی داؤدص 29قبل ح135)

اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضوء دھونے کا باب باندھا:

"باب الوضوء مرة مرة"   (سنن ابی داؤدص 30قبل ح138)

کیا وضوء کرتے وقت تین تین دفعہ اعضائے وضوء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو پھر گھمن صاحب کا قاعدہ کہاں گیا۔؟

8۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  نے سجدوں کی دعا(تسبیحات)کے کئی باب باندھے۔ مثلاً:

"عدد تسبيح في السجود" (سنن النسائی ص157قبل1136)

اور بعد میں:"باب الرخصة في ترك الذكر في السجود" یعنی سجدوں میں ترک ذکر (ترک تسبیحات)کی رخصت (اجازت ) کاباب ۔ (سنن النسائی ص157قبل137)

کیا گھمن قاعدے و قانون کی روسے سجدوں کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟"

9۔امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے"لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع"

کاباب باندھ کر وہ روایات پیش کیں۔ جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  (2/101قبل 5059)

اور انھوں نے بعد میں: "من كان يرى الجمعة في القرى وغيرها" جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے کا باب باندھ کردہ صحیح روایات پیش کیں، جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص101۔102قبل ح5068)

کیاگھمن صاحب اور ان کے ساتھی اپنے نرالے قاعدے کی"لاج"رکھتے ہوئے گاؤں میں نماز جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟اگر نہیں تو کیوں اور ان کا قاعدہ کہاں گیا؟

10۔امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے نماز جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:"

"ما قالوا في التكبير على الجنازة من كبر أربعا"

(مصنف ابن ابی شیبہ 3/299قبل ح11416)

اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:

"من كان يكبر على الجنازة خمسا"

(مصنف ابن ابی شیبہ 3/302قبل ح11447)

کیا گھمن صاحب کی پارٹی میں کسی ایک آدمی میں بھی یہ جرات ہے کہ وہ اپنے اس گھمنی قاعدے قانون اور اصول کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟

اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔مثلاً امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک باب میں سجدہ کرنے سے پہلے گھٹنے زمین پر لگانے والی(ضعیف)حدیث لکھی اور پھر اس کے فوراً بعد دو حدیثیں لکھیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے دونوں ہاتھ لگائے جائیں۔دیکھئے سنن النسائی(ص150۔151قبل ح1090،1091،1092)

امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کے ترک کا باب پہلے باندھا ہے اور دوسرے باب میں آگ پر پکا ہوا کھانا کھانے سے وضو ٹوٹنے کی حدیثیں لائے ہیں۔(دیکھئے سنن ابی داؤد ح187۔193اور ح194۔195)

معلوم ہوا کہ گھمن صاحب کا مزعومہ قاعدہ قانون اور اصول باطل ہے جس کی تردید کے لیے ہمارے مذکورہ حوالے ہی کافی ہیں اور دیوبند ی حضرات میں سے کوئی بھی اصول کو من و عن تسلیم کر کے دوسرے ابواب والی مذکورہ روایات کو منسوخ نہیں سمجھتا ۔ لہٰذا اہل حدیث یعنی اہل سنت کے خلاف یہ کود ساختہ قاعدہ واصول پیش کر کے پرو پیگنڈا کرنا غلط اور مردود ہے۔ بطور لطیفہ اور بطور عبرت ونصیحت عرض ہے کہ نیموی حنفی صاحب نے مسجد میں دوسری نماز باجماعت کے مکروہ ہونے کا باب باندھا:

 "مَا اسْتَدَلَّ بِهِ عَلَى كَرَاهَةِ تَكْرَارِ الْجَمَاعَةِ فِي الْمَسْجِدِ"(آثارالسنن قبل526)

اور اس کے فوراً بعد دوسری جماعت کرانے کے جواز کا باب باندھا:

"باب ماجاء في جواز تكرار الجماعة في مسجد" (آثارالسنن قبل ح527)

کیا یہاں بھی گھمن صاحب اور آل گھمن جماعت ثانیہ کی تکرار کے بارے میں دعوی کراہت منسوخ اور جواز کو ناسخ سمجھ کر جائز ہونے کا فتوی دیں گے۔؟"

ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک اصول و قاعدہ خود بنا کر پھر خود ہی اسے توڑ دیا جائے پاش پاش کر دیا جائے بلکہ"هَبَاءً مَّنثُورًا" بنا کر ہوا میں اڑادیا جائے۔ اس طرح سے تو بڑی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

کیا آل دیوبند میں کوئی بھی ایسا نہیں جو گھمن صاحب کو سمجھائے کہ اپنی اوقات سے پاؤں باہر نہ پھیلائیں اور اپنے خود ساختہ اصولوں کی بذات خود تو مخالفت نہ کریں۔؟

ثابت ہوا کہ اہل حدیث (یعنی اہل سنت)منسوخ روایات پر عمل نہیں کرتے لہٰذا گھمن صاحب نے اپنی مذکورہ تقریر میں خطیبانہ جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہل حدیث کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے جسے دوسرے الفاظ میں دروغ گوئی کہا جاتا ہے اور ایسا کرنا شریعت اسلامیہ میں ممنوع ہے۔

منسوخ روایات پر دیوبندی علماء و عوام کے عمل کی دو مثالیں درج ذیل ہیں:

1۔صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا بھی ثابت ہے اور اندھیرے میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ"

"ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة لوقتها الآخر حتى قبضه الله"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وفات تک آخری وقت میں کبھی نماز نہیں پڑھی۔

(المستدرک للحاکم 1/190ح682وسندہ حسن وصححہ الحاکم علی شرط الشیخین دوافقہ الذہبی )

اس روایت سے معلوم ہوا کہ صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا منسوخ ہے۔ نیز دیکھئے الناسخ والمنسوخ للحازمی (ص77)اور میری کتاب ہدیۃ المسلمین (حدیث نمبر8ص26۔27)

عام دیوبندیوں کا عمل یہ ہے کہ وہ رمضان کے علاوہ باقی مہینوں میں نماز فجر خوب روشنی کر کے یعنی منسوخ وقت میں پڑھتے ہیں۔

2۔ایک روایت میں:

"وإذا قرأ فأنصتوا "

"یعنی جب امام قرآءت کرے تو تم خاموش ہو جاؤ کے الفاظ آئے ہیں۔ دیکھئے صحیح مسلم(404ترقیم دالسلام :905)

چونکہ اس حدیث کے ایک راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تھے(صحیح مسلم 404دارالسلام 905)

اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے فاتحہ خلف الامام کا حکم ثابت ہے:

دیکھئے جزء القراء للبخاری(153وسندہ صحیح) آثار السنن (358وقال واسنادہ حسن ) اور میری کتاب علمی مقالات (ج2ص263)

حنفیوں کا مشہور اصول ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے خلاف فتوی دے تو وہ روایت منسوخ ہوتی ہے لہٰذا اس فتوے کی روسے "وإذا قرأ فأنصتوا " والی روایت منسوخ ہے لیکن دیوبندی حضرات فاتحہ خلف الامام کے مسئلے پر اپنی کتابوں اور مناظروں میں اس منسوخ حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔

اپنے ہی اصول خود توڑ کر پاش پاش کر دینا مذہبی خود کشی کی بد ترین مثال ہے۔

فاتحہ خلف الامام کا منسوخ ہونا تو بہت دور کی بات ہے کسی ایک بھی صحیح حدیث میں صراحت کے ساتھ فاتحہ خلف الامام کی مخالفت ثابت نہیں۔دیوبندیوں کے پیارے عبدالحئی لکھنوی صاحب نے علانیہ لکھا ہے:

"لم يرد في حديث مرفوع صحيح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وكل ما ذكروه مرفوعا......"  "کسی مرفوع صحیح میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت نہیں آئی لوگوں نے اس بارے میں جو مرفوع روایتیں ذکر کی ہیں ان کی یا تو کوئی اصل نہیں یا وہ صحیح نہیں ہیں۔(التعلیق الممجد ص101حاشیہ نمبر1)

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔دیکھئے میری کتاب الکواکب الدریہ(ص24۔27)

کیا یہ جلیل القدر صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  منسوخ پر عمل پیرا تھے؟

حافظ ابن البر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اور یقیناً علماء کا اجماع ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے (سورۃ فاتحہ ) پڑھتا ہے اس کی نماز مکمل ہے اس پر کوئی اعادہ نہیں ہے۔

(الاستذکار2/193،الکواکب الدریہ ص31نیز دیکھئے میری کتاب نصر الباری فی تحقیق جزاء القراء للبخاری)

نماز میں رفع یدین قبل الرکوع و بعدہ کو منسوخ کہنا کئی وجہ سے باطل ہے جس کی تفصیل میری کتاب نور العینین فی اثبات رفع الیدین میں دیکھی جا سکتی ہے فی الحال گھمن صاحب کے دعوی منسوخیت کے ابطال کے لیے دس دلیلیں اور حوالے پیش خدمت ہیں۔

1۔رفع یدین کا متروک یا منسوخ ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے آپ کی ساری زندگی میں کسی ایک نماز کی کسی ایک رکعت میں بھی باسند صحیح و مقبول ثابت نہیں ہے:

تنبیہ: اس سلسلے میں امام سفیان ثوری(مدلس) کی عاصم بن کلب سے روایت ان کے "عن"یعنی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے:تفصیل کے لیے دیکھئے نور العینین اور الحدیث حضرو:67)

2۔رفع یدین کا منسوخ یا متروک ہونا کسی ایک صحابی سے بھی باسند صحیح و مقبول ثابت نہیں ہے:

تنبیہ:سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تینوں صحابیوں میں سے کسی ایک سے بھی ترک رفع یدین ثابت نہیں ہے۔دیکھئے نور العینین۔

اب آل دیوبند کے پسند یدہ علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں:

3۔عبدالحئی لکھنوی نے دعوی منسوخیت کو بے دلیل قراردیا ہے۔(دیکھئے التعلیق الممجد ص91)

4۔انور شاہ کشمیری دیوبندی نے کہا:

"إن الرفع متواتر إسنادا وعملا ولا يشك فيه ولم ينسخ ولا حرف منه"

"اور جان لینا چاہیے رفع یدین بلحاظ سندو بلحاظ عمل متواتر ہے، اس میں کوئی شک نہیں یہ منسوخ نہیں ہوا اور اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔ (نیل الفرقدین ص22)

یاد رہے کہ یہ قول بطور الزامی دلیل پیش کیا گیا ہے ترک رفع یدین کے سلسلے میں انور شاہ صاحب وغیرہ کے نظریات سے ہم پر رد کرنا غلط ہے۔

5۔ابو الحسن سندھی حنفی نے رفع یدین کے منسوخ ہونے کا انکار کیا ہے۔دیکھئے شرح سنن ابن ماجہ (ج1ص282تحت ح858)

6۔بدر عالم میرٹھی نے بھی یہی کہا کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہے۔( البدرالساری2/255)

7۔شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب نے رفع یدین کے بارے میں فرمایا:

"اور جو شخص رفع یدین کرتا ہے میرے نزدیک اس شخص سے جو رفع یدین نہیں کرتا اچھا ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ اردو ج1ص361عربی ج2ص10)

معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔

سرفراز کان صفدر صاحب نے ایک بریلوی کو مخاطب کر کے لکھا ہے۔"مفتی صاحب کیا آپ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کو مسلمان اور عالم دین اور اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو آپ کو حضرت شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی بات تسلیم کرنا پڑے گی اور اگر آپ ان کی بات تسلیم نہیں کرتے تو آپ کو ان کی عبارت کا صحیح محمل بیان کرنا ضروری ہے کیونکہ جیسے وہ ہمارے بزرگ ہیں ویسے ہی وہ آپ کے بھی بزرگ ہیں۔(باب جنت بجواب راہ جنت ص49)

عرض ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے تسلیم کردہ بزرگ کی بات تو مان لیں۔

8۔ صوفی عبدالحمید سواتی صاحب نے کہا:"رکوع جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا زیادہ بہتر اور کرلے تو جائز ہے۔"(نماز مسنون ص349)

معلوم ہوا صوفی عبدالحمید صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔

رہا ان کا ترک رفع یدین کو زیادہ بہتر کہنا تو یہ ان کی دیوبندیت ہے اور اس پر کوئی صحیح دلیل وارد نہیں ہے لہٰذا زیادہ بہتر والی بات مردود ہے۔

9۔اشرفعلی تھانوی صاحب سے پوچھا گیا۔ "رفع الیدین  فی الصلوٰۃ جائز ہے یا نہیں۔"

تو انھوں نے جواب دیا۔"جائز ہے جیسا کہ عدم رفع بھی جائز ہے۔"(امداد الفتاوی ج1ص148سوال نمبر208)

معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے ورنہ کبھی جواز کا فتوی نہ دیتے۔

10۔ رفع یدین اور ترک رفع یدین کے بارے میں محمد منظور  نعمانی دیوبندی نے کہا:

"دونوں طریقوں کے جائز اور ثابت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔"(معارف الحدیث ج3ص265)

عرض ہے کہ ترک تو ثابت نہیں لہٰذا جائز کس طرح ہوا؟تاہم اس عبارت سے ظاہر ہے کہ نعمانی صاحب کے نزدیک رفع یدین منسوخ نہیں ہے۔ احادیث صحیحہ آثار صحابہ اور صحابہ اور اپنے تسلیم کردہ اکابر کے مذکورہ حوالوں کے مقابلے میں محمد الیاس گھمن صاحب کا رفع یدین کو منسوخ قرار دینا غلط و مردود بھی ہے اور دیوبندی اکابر کے خلاف بغاوت بھی ہے۔

امید ہے کہ آل دیوبند انھیں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔واللہ اعلم (12/جون 2010ء)

تنبیہ:ابواب (پہلے یا بعد )کے سلسلے میں ہمارے شاگرد سلیم اختر صاحب حفظہ اللہ(کراچی)نے بھی آل دیوبند (کے عبدالغفار)کا بہترین رد لکھا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ250

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ