سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) صحیح بخاری اور طاہر القادری پارٹی

  • 21320
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2023

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

"طاہر القادری پارٹی کے ایک بریلوی نے لکھا ہے۔

1۔بخاری شریف میں ایسے راوی موجود ہیں جو قدری ، رافضی اور مرجیہ عقائد کے حامل تھے اور ایسے راوی بھی ہیں جو منکر الحدیث واہی اور وہمی تھے۔

2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے جن راویوں پرخود دوسری کتابوں میں جرح کی ہے صحیح بخاری میں ان سے روایات لے آئے ہیں۔ ہم یہاں صرف دو روایات کو درج کرتے ہیں۔

1۔"باب الاستنجاء بالماء"کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک روایت اس سند کے ساتھ ذکر کی ہے۔

"حدثنا أبو الوليد هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة عن أبي معاذ واسمه عطاء بن أبي ميمونة قال سمعت أنس بن مالك يقول كان النبي صلي الله عليه وسلم اذا خرج لحاجته....."الحديث

 (صحیح البخاری طبع کراچی ح150)

اس حدیث کی سند میں ایک راوی ہے:عطاء بن ابی میمونہ ، اس کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"عطاء بن أبي ميمونة أبو معاذ مولى أنس وقال يزيد بن هارون مولى عمران بن حصين كان يري القدر"

یعنی یہ شخص عقائد قدریہ کا حامل تھا۔(تاریخ کبیر 6/469ت3012مطبوعۃ دارالکتاب العلمیہ ،بیروت)

2۔ اسی طرح انھوں نے" کتاب المغازی"میں ایک حدیث ذکر کی ہے:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَائِذٍ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ طَارِقَ بْنَ شِهَابٍ يَقُولُ حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"الحديث

 (صحیح البخاری طبع کراچی ح4346)

اس حدیث میں ایک راوی ہیں ایوب بن عائذ(ایوب بن عائذ اور عطاء بن ابی میمونہ پر اعتراضات اور ان کے تفصیلی جوابات کے لیے ملاحظہ ہو اشاعۃ الحدیث شمارہ121۔)اس کو بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے "کتاب الضعفاء"میں درج کیا ہے اور فرماتے ہیں: "یہ شخص مرجیہ عقائد کا حامل تھا"

(کتاب الضعفاء الصغیر 24دوسرا نسخہ 25تاریخ کبیر 1/420ت1346)

حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  ایوب بن عائذ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔"امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ نے ایوب بن عائذ کو مرجیہ قراردے کر اس کا الضعفاء میں شمار کیا ہے اور حیرت ہے کہ اس کو ضعیف قراردے کر پھر اس سے استدلال کرتے ہیں۔ میزان الاعتدال 1/289دوسرا نسخہ 1/459)

اس سے ہمارا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ ہم امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  پر کسی قسم کی کوئی تنقید یا اعتراض کر رہے ہیں بلکہ یہ تو اس عمومی خیال کا جواب ہے جو کہا جاتا ہے کہ بخاری شریف کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

مزید طمانیت خاطر کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب الضعفاء کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

جس میں اور راویوں پر بھی امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کی جرح موجود ہے اور پھر انہی سے صحیح بخاری  میں روایات موجود ہیں۔ المختصر یہ ماننا پڑے گا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  بھی بشر ہیں۔ جن سے تسامح ممکن ہے  اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  جیسے جلیل القدر محدث سے بھی اپنی وسعت بھر کوشش کے باوجود بخاری شریف میں روایات لانے میں لغزش ہو ہی گئی۔ اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین"(بریلوی کی تحریر ختم ہوئی)

محترم شیخ صاحب !مذکورہ فوٹو کاپی"طاہر القادری "پارٹی کے ایک فرد نے دی ہے۔ اس سے چند دن" بخاری شریف "پر بحث ہوئی۔ اس کا مؤقف یہ ہے کہ بخاری شریف میں کمزور عقائد کے راوی ہیں، اس لیے بخاری میں اٹھارہ (18)روایتیں ضعیف ہیں۔ اس سے مطلوبہ روایتوں کی وضاحت طلب کی تو اس نے بخاری شریف کی دو روایتوں کے نامکمل حوالے دئیے اور کہا کہ اس میں یہ راوی ضعیف ہیں مثلاً زہیر بن محمد تیمی ،عبد اللہ بن کبیر،عبدالوارث بن سعید ، کہمس بن منہال ،عبدالملک بن اعین ، عطاء بن یزید ، مروان بن حکم"اسی تحریر کے تناظر میں سوال یہ ہے۔

مسئلہ:کیا بخاری شریف میں معلق روایات کے علاوہ دیگر روایات میں کوئی روایت ضعیف ثابت ہے؟ نیز معلقات کی بھی وضاحت فرمادیں اور اس کا جواب "الحدیث " میں شائع کر دیں۔ اللہ آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ جزاکم اللہ خیراً(خالد اقبال سوہدری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس راوی کو جمہور محدثین کرام ثقہ و صدوق قراردیں۔ اسے اگر کسی نے قدری، رافضی یا مرجیہ عقائد کا حامل قراردیا ہے تو ایسا راوی ضعیف نہیں ہوتا بلکہ ثقہ و صدوق یعنی صحیح الحدیث اور حسن الحدیث ہوتا ہے۔ ایسے راوی پر بدعتی وغیرہ کی جرح غیر موثر اور مردود ہوتی ہے۔

1۔ امام بن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  النسابوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک شیعہ راوی کے بارے میں فرمایا:

"حدّثنا عَبّاد بن يعقوب المُتّهم في رأيه الثقة في حديثه"

ہمیں عبادبن یعقوب نے حدیث بیان کی۔ وہ اپنی رائے میں تہمت زدہ (اور )اپنی حدیث میں ثقہ ہے(صحیح ابن خزیمہ2/376۔377ح1497)

2۔امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  نے عاصم بن ضمرہ کے بارے میں فرمایا:ثقہ شیعی"

(من کلام ابی زکریا یحییٰ بن معین روایۃ ابی خالد الدقاق یزید بن الہیثم الباد1159)

ایک راوی کو امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ  نے ثقہ وغیرہ کہا تو ایک آدمی نے کہا:وہ شیعہ ہے امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ  نے جواب دیا:"اور شیعہ ثقہ (ہوتا )ہے اور قدری ثقہ (ہوتا) ہے۔(سوالات ابن الجنید:617)

3۔امام ابو زرعہ الرازی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابراہیم بن یزید بن شریک التیمی کے بارے میں فرمایا: "كوفي ‘ثقة‘مرجئي"(کتاب الجرح والتعدیل 2/145)

4۔امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمۃ اللہ علیہ  نے محمد بن فضیل بن غزوان کے بارے میں فرمایا: ثقہ شیعی" (کتاب المعرفۃ والتاریخ 3/112)

5۔امام عجلی  رحمۃ اللہ علیہ  نے محمد بن فضیل بن غزوان کے بارے میں فرمایا:

كوفي"ثقة" وكان يتشيع"(التاریخ بترتیب الہیثمی والسبکی:1635)

6۔امام ابن شاہین البغدادی نے عاصم بن ضمرہ کے بارے میں فرمایا:

"ثقہ شیعی"(تاریخ اسماء الثقات:832)

7۔اہل سنت کے مشہور امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے ثور بن یزید کے بارے میں فرمایا:

"كان يري القدر وهو ثقة في الحديث"

"وہ قدری مذہب کا قائل تھا اور وہ حدیث میں ثقہ ہے(کتاب العلل و معرفۃ الرجال 2/75ت1594)

8۔امام ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ  نے عدی بن ثابت کے بارے میں فرمایا:

"صدوق ، كان إمام مسجد الشيعة وقاصهم"

"وہ سچا ہے وہ شیعوں کی مسجد کا امام اور ان کا واعظ (خطیب )تھا۔ (کتاب الجرح والتعدیل 7/2)

9۔متاخرین میں سے اسماء الرجال کے ماہر حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے حسان بن عطیہ کے بارے میں فرمایا:

"ثقة عابد نبيل لكنه قدري" (الکاشف 1/157ت1011)

اور ابان بن تغلب کے بارے میں فرمایا:

"شيعي جلد، لكنه صدوق، فلنا صدقه، وعليه بدعته"

"وہ کٹر شیعہ لیکن سچا ہے، پس ہمارے لیے اس کی سچائی اور اس کی بدعت (کا وبال) اسی پر ہے(میزان الاعتدال 1/5)

اس اصول سے حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ مسئلہ سمجھا دیا کہ ثقہ و صدوق بدعتی کی روایت مقبول ہوتی ہے۔

10۔متاخرین میں سے اسماء الرجال کے دوسرے بڑے ماہر حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے عبدالملک بن مسلم بن سلام کے بارے میں کہا:"ثقہ شیعی"(تقریب التہذیب:4216)

اور ثور بن یزید کے بارے میں فرمایا:"

"ثقة ثبت إلا أنه يرى القدر""یعنی وہ ثقہ ثبت قدری تھا۔(تقریب التہذیب:4216)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے موجود ہیں مثلاً امام سفیان بن سعید الثوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے قدری راوی ثور بن یزید کے بارے میں فرمایا:

"خذوا عنه، واتقوا قرنيه، يعني أنه كان قدرياً"

اس سے(حدیث)لے لواوراس کے سینگوں سے بچ جاؤ یعنی وہ قدری تھا۔(کتاب الجرح والتعدیل 2/468وسندہ صحیح)

ثابت ہوا کہ جلیل القدر محدثین اور سلف صالحین کے نزدیک ثقہ و صدوق بدعتی راوی کی روایت صحیح و حسن اور حجت ہوتی ہے ۔ 

اس اصولی بحث و تحقیق کے بعد صحیح بخاری کے دونوں راویوں عطاء بن ابی میمونہ اور ایوب بن عائذ کے بارے میں تحقیق علی الترتیب پیش خدمت ہے۔

1۔ تہذیب الکمال اور تہذیب التہذیب وغیرہما میں عطاء بن ابی میمونہ پر درج ذیل علماء سے جرح مذکورہے۔

ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ ، بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، عقیلی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  (کل تعداد6)

اس کے مقابلے میں درج ذیل علماء سے توثیق وتصحیح مذکور ہے۔

یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ  ابو زرعہ الرازی رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن سعد  رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ،یعقوب بن سفیان الفارسی رحمۃ اللہ علیہ ، عجلی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن شاہین  رحمۃ اللہ علیہ ، بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ (کل تعداد9)

اگر مزید تلاش کی جائے تو اور بھی کئی توثیقی حوالے مل سکتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ عطاء بن ابی میمونہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ یا صحیح الحدیث تھے ۔یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"ثقة رمي بالقدر" (تقریب التہذیب:4601)

اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: "صدوق " بہت سچا۔(الکاشف 2/233ت3861)

شروع میں عرض کر دیا گیا ہے کہ جس راوی کو جمہور محدثین ثقہ و صدوق قراردیں اس پر قدری وغیرہ کی جرح غیر موثر اور مردود ہے۔

تنبیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے انھیں ان پر قدری ہونے کے اعتراض کی وجہ سے کتاب الضعفاء میں ذکر کیا، لیکن خودانھیں ضعیف و مجرح قرارنہیں دیا۔ بلکہ صحیح بخاری میں ان کی روایات سےاستدلال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ثقہ و صدوق بدعتی کی روایت صحیح و حسن ہوتی ہے۔

اس بات کی تائید بن عائذ کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے کلام سے بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے ان شاء اللہ۔

کتاب الجرح والتعدیل کے محقق (شیخ معلمی یمانی رحمۃ اللہ علیہ ) نے فرمایا:

"والبخاري ربما يذكر في كتاب الضعفاء بعض الصحابة الذين رُوي عنهم شيء لم يصح, ومقصوده بذلك ضعف المَرْوي لا الصحابي "

اور بخاری بعض اوقات کتاب الضعفاء  میں بعض صحابہ بھی ذکر کر دیتے ہیں جن سے کوئی روایت مروی ہوتی ہے لیکن وہ صحیح ثابت نہیں ہوتی۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ روایت ضعیف ہے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ صحابی ضعیف ہے(حاشیہ3/22)

اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  بعض (ثقہ و صدوق عندالجمہور)راویوں کوارجاء یا قدر یہ وغیرہ کی وجہ سے کتاب الضعفاء میں ذکر کر دیتے تھے۔ مگر وہ راوی ان کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا تھا جیسا کہ انھوں نے ایوب بن عائذ کو ارجاء کے باوجود صدوق (بہت سچا) قراردیا۔

2۔ایوب بن عائذ کو ارجاء کا معتقد تو قراردیا گیا ہے، مگر حدیث میں اس پر کوئی قابل ذکر جرح نہیں اسے صرف ارجاء کی وجہ سے امام ابو زرعہ الرازی رحمۃ اللہ علیہ  (اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  )نے کتاب الضعفاء میں ذکر کیا جبکہ درج ذیل علماء سے توثیق منقول ہے:

یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ ، ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ  ، بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  ، مسلم رحمۃ اللہ علیہ  ،نسائی رحمۃ اللہ علیہ  ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن شاہین اور عجلی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم(کل تعداد9)

جمہور کے مقابلے میں ایک دو یا بعض یا اقلیت کی جرح مردود ہوتی ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے ایوب بن عائذ کے بارے میں فرمایا: وہ ارجاء کے قائل تھے اور وہ صدوق (بہت سچے ) تھے۔(الضعفاء 24و3 بتحقیقی :25)

معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک ایوب بن عائذ صدوق یعنی حسن الحدیث یا صحیح الحدیث تھے۔ لہٰذا رجاء کی وجہ سے ان کی روایات کو ضعیف قراردینا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک بھی غلط ہے۔

معترض نے"وهو صدوق" کے الفاظ چھپا کر انتہائی مذموم حرکت کا ارتکاب کیا ہے۔

تنبیہ : ایوب بن عائذ کے تحت امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کا میزان الاعتدال "ويغمزه "بخاری کے اپنے قول "وهو صدوق" کی وجہ سے غلط ہے۔

بریلویوں کے"ہم فقہ" بھائی سرفراز خان صفدر دیوبندی نے کیا ہی خوب لکھا ہے کہ "بایں ہمہ ہم نے توثیق و تضعیف میں جمہور آئمہ جرح و تعدیل اور اکثر آئمہ حدیث کا ساتھ اور دامن نہیں چھوڑا ۔ مشہور ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔"(احسن الکلام ج1ص40دوسرا نسخہ ص61)

عبدالوہاب بن علی السبکی (متوفی 771ھ)نے لکھا ہے کہ:

"والجرح مقدم إن كان عدد الجارح أكثر من المعدل إجماعا"

"اور اس پر اجماع ہے کہ اگر جارحین معدلین کے مقابلے میں زیادہ ہوں تو جرح مقدم ہوتی ہے۔(قاعدۃ فی الجرح والتعدیل للسبکی ص50)

اس اجماع (یا جمہور )کے مفہوم سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ اگر معدلین کی تعداد زیادہ ہو تو تعدیل یعنی توثیق مقدم ہوگی اور ہمارے نزدیک یہی راجح ہے۔

تنبیہ:طاہر القادری پارٹی والے کا یہ کہنا کہ بخاری شریف میں"ایسے راوی بھی ہیں جو منکر الحدیث واہی اور وہمی تھے۔"بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔

ہمارا چیلنج ہے کہ صحیح بخاری کے اصول میں ایک راوی بھی ایسا نہیں جسے جمہور نے منکر الحدیث واہی وہمی یا ضعیف قراردیا ہو۔ والحمد للہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  بشر تھے اور ان سے تسامح ممکن تھا مگر یا در ہے کہ صحیح بخاری کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور اس وجہ سے صحیح بخاری کی تمام مرفوع سند متصل روایات یقیناً صحیح ہیں۔

عینی حنفی نے کہا:مشرق و مغرب کے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ کتاب اللہ کے بعد بخاری و مسلم سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں ہے۔(عمدۃ القاری 1/5)

ملاعلی قاری نے کہا:پھر علماء کا اتفاق ہے۔ کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح 1/58)

شاہ ولی اللہ دہلوی نے فرمایا:

"صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں ۔ جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ اردو مترجم 1/242از عبدالحق حقانی)

احمد رضا خان بریلوی نے حدیث بخاری کو" اجل واعلیٰ حدیث" قراردیا ۔

دیکھئے احکام شریعت (حصہ اول ص62)

بریلویوں کے ایک بزرگ عبد السمیع رام پوری نے لکھا ہے۔"اور یہ محدثین میں قاعدہ ٹھہر چکا ہے کہ صحیحین کی حدیث نسائی وغیرہ کل محدثوں کی احادیث پر مقدم ہے کیونکہ اوروں کی حدیث اگر صحیح ہوگی تو صحیحین اس سے صحیح اور قوی تر ہوگی۔"(انوارساطعہ ص41)

بریلوی پیر محمد کرم شاہ بھیروی نے فرمایا:"جمہور علماء امت نے گہری فکر و نظر اور بے لاگ نقد و تبصرہ کے بعد اس کتاب کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری کا عظیم الشان لقب عطا فرمایا ہے۔(سنت خیر الانام ص175طبع 2001ء)

مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب :صحیح بخاری پر اعتراضات کا علمی جائز ہ (ص12۔13۔ص17۔18)

معترض مذکور کا یہ کہنا  کہ"بخاری میں اٹھارہ روایتیں ضعیف ہیں۔"بالکل غلط ، باطل اور مردود ہے۔آپ اسے کہیں کہ تمھیں سترہ روایتیں معاف ہیں صرف ایک روایت کا ضعیف ہونا اصول حدیث اور اسماء الرجال کی روسے (عندالجمہور)ثابت کردو۔اپنے ساتھیوں کو بھی ملا لو اور اگر نہ کر سکو اور ہر گز نہیں کر سکو گے۔ان شاء اللہ)

تو صحیح بخاری کے خلاف طعن و تشنیع والی زبان کو کنٹرول کرو،ورنہ اخروی پکڑ سے نہیں بچ سکو گے۔ ان شاء اللہ۔

معترض کا قول:"بخاری شریف میں کمزور عقائد کے راوی ہیں۔" جمہور کی توثیق کے بعد جرح نہیں بلکہ مردود ہے۔

زہیر بن محمد اسمیمی،عبدالوارث بن سعید ،کہمس بن منہال ، عبدالملک بن اعین ، عطاء بن یزید اور مروان بن حکم سب جمہور کے نزدیک ثقہ یا صدوق یعنی صحیح الحدیث یا حسن الحدیث تھے لہٰذا ان پر بعض کی جرح مردود ہے۔

عبد اللہ بن کبیر نامی راوی صحیح بخاری کا راوی ہی نہیں بلکہ یہ کتابت کی غلطی یا تصحیف معلوم ہوتی ہے۔واللہ اعلم۔

صحیح بخاری کی معلق روایات انھیں کہا جاتا ہے جن کی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے مذکورہ مقام پر متصل سند بیان نہیں کی۔ مثلاًصحیح بخاری، کتاب الایمان کے پہلے باب میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ کے اقوال معلق روایات میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجرالعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے تغلیق التعلیق کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب لکھی ہے جس میں صحیح بخاری کی معلق روایات کو اپنی استطاعت کے مطابق باسند بیان کر دیا ہے اور یہ کتاب مقدمے کے ساتھ پانچ جلدوں میں مطبوع ہے۔

ہماری تحقیق کے مطابق صحیح بخاری میں سند متصل ایسی کوئی مرفوع حدیث نہیں جو ضعیف ہو اور اسی پر ہمارا ایمان ہے۔والحمدللہ۔

معترض سے کہیں کہ وہ اپنے طاہر القادری صاحب کو تیار کریں وہ صحیح بخاری کے اصول میں سے تین مسند متصل مرفوع روایات کا ضعیف ہونا ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ ہم ان شاء اللہ اس کا جواب دیں گے اور صحیح بخاری کی احادیث اور راویوں کا دفاع کریں گے۔

نیز ان سے یہ مطالبہ بھی کریں کہ وہ صحیح ابی حنیفہ یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی وہ کتاب جس میں انھوں نے صرف صحیح احادیث کو جمع کیا تھا، پیش کریں تاکہ صحیح بخاری اور صحیح ابی حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان مقارنہ موازنہ کیا جا سکے۔وما علینا الا البلاغ۔(11/دسمبر2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ236

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ