سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح اور صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع

  • 21310
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1719

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  اپنی مشہور کتاب"الصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "صفحہ 166(اردو مترجم)میں لکھتے ہیں ۔"صحیح مسلم میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔مسلمان نہ ابو سفیان کی جانب دیکھا کرتے تھے اور نہ اسے اپنے پاس بٹھایا کرتے تھے۔اس نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا کہ تین باتیں ہیں وہ مجھے عطا فرمائیے۔فرمایا: اچھا !کہا: میرے پاس عرب بھر میں سب سے زیادہ حسین و جمیل لڑکی اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہے میں اس کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں،

واضح ہو کہ اس حدیث کے معنی میں لوگوں کو بہت ہی مشکل پڑی ہے کیونکہ اُم المومنین اُ م حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا نکاح ابو سفیان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اسلام لانے سے پیشتر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہو چکا تھا اور نجاشی نے پڑھا یا تھا اور اپنے باپ کے اسلام لانے سے پیشتر نبی کی خدمت میں مدینہ پہنچ گئی تھیں اور پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد ابو سفیان کہے کہ"میں اُ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا نکاح آپ سے کرتا ہوں"ایک گروہ علماء کا قول ہے کہ یہ حدیث کذب ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔ ابن حزم کا قول ہے۔"عکرمہ بن عمار نے یہ جھوٹ بنایا ہے۔(ص166۔167)

اسی طرح حافظ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے مذکورہ کتاب میں صفحہ 167سے 175تک میں اس روایت کا دفاع کرنے والوں پر رد کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے:

"ٹھیک تو یہی ہے کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے اور اس میں کچھ خلط ملط ضرور ہوا ہے۔"(صفحہ نمبر175)

محترم شیخ صاحب !اس روایت کے بارے میں مکمل تحقیق درکار ہے اور تفصیل کے ساتھ صحیحین پر اجماع کے بارے میں بھی وضاحت درکار ہے تاکہ اس حوالے سے مزید اعتراضات کو ختم کیا جاسکے کیونکہ محترم بدیع الدین شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی تفسیر کا اردو ترجمہ ہو رہا ہے اور اس کی اشاعت سے قبل ہی اس معاملے پر اگر تفصیلی مضمون آجائے تو یہ اہل حدیث علماء و عوام پر احسان ہو گا۔(ان شاء اللہ)جزا کم اللہ خیراً فی الدرین (وکیل ولی قاضی ،حیدر آباد سندھ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  اور ابو سفیان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث کی سند درج ذیل ہے:

النَّضْرُ ، وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ ..." (صحیح مسلم: 2501،دارالسلام :6409)

اور نضر بن محمد بن موسیٰ الجرشی  الیمامی صحیح بخاری  رحمۃ اللہ علیہ ،صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ  ، سنن ابی داؤد  رحمۃ اللہ علیہ ، سنن رحمۃ اللہ علیہ  ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ اور سنن ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

انھیں امام عجلی  رحمۃ اللہ علیہ ، امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم نے ثقہ قراردیا ۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  نے انھیں ثقات میں ذکر کر کے فرمایا: "ربما تفرد" بعض اوقات وہ تفرد کرتے تھے۔

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا: "ثقہ" (الکاشف 3/219)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"ثقہ لہ افراد"(تقریب التہذیب:7148)

یادرہے کہ ثقہ و صدوق راوی کا تفرد ذرا برابر بھی مضر نہیں ہوتا اور شذوذ کا مسئلہ اس سے علیحدہ ہے۔

اس سند کے دوسرے راوی عکرمہ بن عمار جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث ہیں بشرطیکہ سماع کی تصریح کریں اور اس سند میں سماع کی تصریح موجود ہے۔

انھیں یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن المدینی  رحمۃ اللہ علیہ اور عجلی  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم جمہور نے ثقہ قراردیا۔

ان کی یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت میں کلام ہے لیکن یہ روایت یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں ،لہٰذا اس جرح کا ہماری روایت سے کوئی تعلق نہیں:

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ وضاحت فرمائی ہے:

"فَأَمَّا مَا كَانَ مِنْهَا عَنْ قَوْمٍ هُمْ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ مُتَّهَمُونَ ، أَوْ عِنْدَ الأَكْثَرِ مِنْهُمْ ، فَلَسْنَا نَتَشَاغَلُ بِتَخْرِيجِ حَدِيثِهِمْ....." 

میں نے ایسے راویوں کی روایت نہیں لی جنھیں اہل حدیث نے(بالا جماع)متہم (مجروح) قراردیا ہے یا اکثر یت کے نزدیک وہ مجروح ہیں۔(مقدمۃ صحیح مسلم ص6)

اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسماء الرجال میں راویوں پر محدثین کے اختلاف اور عدم تطبیق کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔

عکرمہ بن عمار پر ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے غلط ہے اور اس حسن لذاتہ حدیث کو کذاب(جھوٹ)کہنا سر ے سے مردود اور باطل ہے۔

تیسرے راوی ابو زمیل سماک بن الولید الیمامی الکوفی کو امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ ، ابن معین رحمۃ اللہ علیہ  ، عجلی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم نے ثقہ کہا ہے اور ابو حاتم الرازی  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"صدوق لا باس بہ"

یہ ثقہ صدوق راوی ہیں اور ان کے استاد سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مشہور صحابی ہیں۔نضر بن محمد والی یہ سند حسن لذاتہ یعنی حجت ہے۔

اسے نضر بن حمد الیمامی کی سند سے درج ذیل اماموں نے بھی روایت کیا ہے۔

1۔ابن ابی عاصم (الآحادو المثانی1/364ح487،5/418،ح3070)

2۔ابن حبان (صحیح ابن حبان :7166دوسرانسخہ :7210)

3۔طبرانی(المعجم الکبیر23/ح 404،12/199ح12885)

4۔بیہقی (السنن الکبری7/140)

5۔عبد الغنی بن عبدالواحد المقدسی (المصباح فی عیون الصحاح :48شاملہ)

6۔حسین بن ابراہیم الجورقانی الہمدانی(الاباطیل والمناکیر 1/189ح180،وقال :"ھذاحدیث صحیح )

اسے نضر بن محمد سے احمد بن یوسف السلمی ، عباس بن عبد العظیم العنبری اور احمد بن جعفر المعقری ثقہ راویوں نے بیان کیا ہے۔

اصول حدیث اور اسماء الرجال کی روسے یہ سند حسن لذاتہ یعنی صحیح ہے اور متن پر حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ ابوسفیان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تینوں سوال ایک ہی مجلس میں کئے تھے، بلکہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے:

"وَإِنْ كَانَتْ مَسْأَلَتُهُ الْأُولَى إِيَّاهُ وَقَعَتْ فِي بَعْضِ خَرَجَاتِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَهُوَ كَافِرٌ حِينَ سَمِعَ نَعْيَ زَوْجِ أُمِّ حَبِيبَةَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ، وَالْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ [ص:227] وَالثَّالِثَةُ وَقَعَتَا بَعْدَ إِسْلَامِهِ لَا يَحْتَمِلُ إِنْ كَانَ الْحَدِيثُ مَحْفُوظًا إِلَّا ذَلِكَ وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ"

"اور اگر ان کا پہلا سوال(اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی شادی کے متعلق )واقع ہوا تو یہ ان کے اس سفر میں تھا جب وہ کافر کی حیثیت سے مدینہ آئے تھے۔ جب انھوں نے (اپنی بیٹی) اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے شوہر کی حبشہ میں موت کے بارے میں سنا دوسرا اور تیسرا سوال ان کے اسلام لانے کے بعد کے ہیں اگر یہ حدیث محفوظ ہے تو اس کے سوا دوسرا کوئی احتمال نہیں واللہ اعلم۔(السنن الکبری7/140)

اور یہی احتمال صحیح ہے کہ غزوہ بدر سے پہلے ابو سفیان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مدینے آئے تو انھوں نے یہ سوال کیا تھا ، لہٰذا صحیح مسلم کی یہ حدیث محفوظ ہے اور کسی صحیح دلیل کے ساتھ اس کا کوئی تعارض نہیں۔[1]

آخر میں عرض ہے کہ اہل حدیث کے نزدیک صحیح بخاری  رحمۃ اللہ علیہ و صحیح مسلم  رحمۃ اللہ علیہ کی تمام مرفوع مسند متصل احادیث یقیناً اور قطعی طور پر صحیح ہیں اورزمانہ تدوین حدیث میں بعض علماء کا بعض روایات یا بعض حروف پر جرح کرنا مرجوح و غلط ہے اور زمانہ تدوین حدیث وزمانہ شارحین حدیث (یعنی 900ھ)کے بعد ان روایت پر جرح کرنا باطل و مردود ہے۔

حافظ ابن کثیر الدمشقی (متوفی 774ھ)لکھتے ہیں۔"

"قال: ثم حكى ابن الصلاح : إن الأمة تلقت هذين الكتابين بالقبول ، سوى أحرف يسيرة انتقدها بعض الحفاظ كالدارقطني وغيره ، ثم استنبط من ذلك القطع بصحة ما فيهما من الأحاديث ، لأن الأمة معصومة عن الخطأ ، فما ظنت صحَّتَه ووجب عليها العمل به ، لا بد وأن يكون صحيحًا في نفس الأمر . وهذا جيد..... "

"پھر (ابن الصلاح نے)بیان کیا کہ بے شک (ساری )امت نے ان دوکتابوں (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کو قبول کر لیا ہے۔سوائے تھوڑے حروف کے جن پر بعض حفاظ ،مثلا دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے تنقید کی ہے پھر اس سے(ابن الصلاح نے)استنباط کیا کہ ان دونوں کتابوں کی احادیث قطعی الصحت ہیں کیونکہ امت (جب اجماع کر لے تو)خطا سے معصوم ہے،جسے امت نے(بالا جماع )صحیح سمجھا تو اس پر عمل(اور ایمان ) واجب ہے اور ضروری ہے کہ وہ حقیقت میں بھی صحیح ہی ہو،اور (ابن الصلاح کی)یہ بات اچھی ہے۔(اختصار علوم الحدیث 1/124،125)

اصول فقہ کے ماہر حافظ ثناءاللہ الزاہدی نے ایک رسالہ"احادیث الصحیحین بین الظن والیقین "لکھا ہے جس میں ابو اسحاق الاسفرائنی (متوفی 418ھ)امام الحرمین الجوینی (متوفی 478ھ)ابن القیسرانی(متوفی 507ھ)ابن الصلاح (متوفی 643ھ)اور ابن تیمیہ (متوفی 728)وغیرہم سے صحیحین کا صحیح وقطعی الثبوت ہونا ثابت کیا ہے۔

شاہ ولی اللہ الدہلوی  رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

"أما الصحيحان فقد اتفق المحدثون على أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيح بالقطع وأنهما متواتران إلى مصنفيهما وأن كل من يهون أمرهما فهو مبتدع متبع غير سبيل المؤمنين"

"صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں، جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ عربی 1/134اردو 1/242ترجمہ ،عبدالحق حقانی)

تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب "صحیح بخاری کا دفاع "

یہی ہمارا منہج اور عقیدہ ہے اور الحمد للہ کتاب و سنت واجماع نیز آثار سلف صالحین سے یہی منہج وعقیدہ ثابت ہے لہٰذا اس کے خلاف ہم کسی کی بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں،وما علینا الا البلاغ (27/شعبان 1433ھ بمطابق 18/جولائی 2012ء)


[1]۔اس حدیث کی توجیہ میں امام ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں۔" صحیح بات یہ ہے کہ جب ابو سفیان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو داماد بنانا ایک بہت بڑا اشرف ہے تو انہیں یہ پیشکش کی کہ میں اپنی دوسری بیٹی کا نکاح آپ سے کرنا چاہتا ہوں جس کا نام عزہ ہے۔ اس سلسلے میں سیدنا ابو سفیان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے عزہ کی بہن سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مدد چاہی جیسا کہ صحیح بخاری (5106،510)اور صحیح مسلم (15/1449)میں سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ میری بہن اور ابو سفیان کی بیٹی سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا:" کیا تجھے یہ بات پسند ؟"انھوں نے کہا: جی ہاں!اور صحیح مسلم میں( یہ وضاحت بھی) ہے کہ آپ میری بہن عزہ بنت ابی سفیان سے نکاح کر لیں۔(ممکن ہےعزہ کی کنیت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہو یا) راوی پر مشتبہ ہوگیا اور اس نے(عزہ کی جگہ ) اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کہہ دیا۔اس قسم کے بے شمار نظائر و شواہد موجود ہیں۔ میں نے ایک جزء میں اس حدیث کی وجہ سے ایسے تمام نظائر کو یکجا کر دیا۔والحمد للہ۔"(الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ص254) (ندیم ظہیر)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ190

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ