سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) روزے کی حالت میں سینگی لگوانا

  • 21296
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2714

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزے کی حالت میں سینگی لگوانا کیسا ہے؟

ایک حدیث میں ہے کہ سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں نے افطار کیا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی؟(نوید شوکت دربی برطانیہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔

"أن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم"

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی۔(صحیح بخاری 5694)

سینگی یعنی پچھنے لگوانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے جسم پر پچھنے لگا کر سینگی وغیرہ کے ذریعے سے خون نکالنا تاکہ بیماری کا علاج ہو جائے۔

درج بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوانا جائز ہے۔

سیدنا ثابون  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ"

"سینگی لگانے والے اور سینگی لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(سنن ابی داؤد 2367وسندہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ1962۔1963 وابن حبان 899والحاکم علی شرط الشیخین 1/427دوافقہ الذہبی)

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی روایات ہیں لیکن سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ:"

"عن أنس بن مالك قال : أول ما كرهت الحجامة للصائم أن جعفر بن أبي طالب رضي الله عنه احتجم وهو صائم ، فمر به النبي صلى الله عليه وسلم فقال : أفطر هذان ، ثم رخص النبي صلى الله عليه وسلم بعد في الحجامة للصائم ، وكان أنس يحتجم وهو صائم"

میں نے سب سے پہلے اس وقت روزہ دار کے لیے سینگی لگوانا ناپسند کیا تھا جب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی تو وہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  گزرے اور آپ نے فرمایا:"ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔" پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزہ کے لیے سینگی لگوانے کی اجازت دے دی۔اور انس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) روزے کی حالت میں سینگی لگواتے تھے۔

امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: اس کے سارے راوی ثقہ ہیں اور اس میں کوئی علت (قاوحہ ) نہیں۔ (سنن الکبری للبیہقی 4/268)

اس روایت کی سند میں عبد اللہ بن المثنیٰ بن انس جمہور کے نزدیک موقثق اور حسن الحدیث راوی ہیں (دیکھئے تحقیقی مقالات 5/207)

خالد بن مخلد بھی موثق عند الجمہور اور حسن الحدیث ہیں لہٰذا یہ سند حسن لذاتہ ہے اور حافظ ابن عبد الہادی وغیرہ کی اس پر جرح صحیح نہیں ۔واللہ اعلم۔

سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:روزے دار کے لیے سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں (صحیح ابن خزیمہ1981وسندہ حسن)

اس اثر کے راوی امام نعیم بن حماد موثق عند الجمہور ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث ہیں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"الفطر مما دخل ، و ليس مما خرج....."

داخل ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور نکلنے سے نہیں ٹوٹتا۔(الاوسط لا بن المنذر 1/195ت81وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  (3/51ح9319 من رخص للصائم ان يحتجم)

عکرمہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: روزے دار کے لیے سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں۔(ابن ابی شیبہ 3/53ح9333ملخصاً وسندہ صحیح)

عروہ بن الزبیر  رحمۃ اللہ علیہ  روزے کی حالت میں سینگی لگواتے تھے۔(ایضاً 9334)وسندہ صحیح)

اس باب کی تمام روایات کو مد نظر رکھ کر خلاصۃ التحقیق یہی ہےکہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹنے والی روایت منسوخ ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کا بھی یہی مسلک ہے۔

نیز دیکھئے الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار (ص141)

فائدہ: اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ روزے کی حالت میں علاج کے لیے جسم سے کون نکلوانے یا کون دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن کمزوری کے ڈر کی وجہ سے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں خون کا عطیہ نہ دیا جائے۔(واللہ اعلم۔(6/اگست 2013ء) بمطابق 27/رمضان1334ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔روزہ، صدقۂ فطر  اور زکوٰۃ کے  مسائل-صفحہ149

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ