سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) روزوں کی قضا یا فدیہ؟

  • 21295
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3386

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن و سنت کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کی حفاظت کے لیے دراز عمر عطا فرمائے آمین ۔شیخ صاحب ! میں نے اپنے استاد محترم شیخ القرآن والحدیث علامہ عبد السلام صاحب رستمی السلفی سے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص وفات پا جائے اور ان پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہو تو اس میت کے ورثاء اس کے لیے روزے رکھ سکتے ہیں، اور اگر کوئی شخص اس میت کے لیے فدیہ دے تو یہ بھی جائز ہے۔ہاں میت کے لیے روزے رکھنا حدیث مرفوع سے ثابت ہے اور فدیہ والی روایت موقوف ہے۔

لیکن شیخ الحدیث مولانا گوہر رحمٰن  رحمۃ اللہ علیہ  نے فتاوی تفہیم المسائل جلد نمبر 1صفحہ نمبر142پردواحادیث نقل کی ہیں کہ" میت کے لیے نہ کوئی نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ روزے رکھ سکتا ہے۔"

یہ تو ٹھیک ہے کہ نماز کا نہ کوئی فدیہ احادیث میں ثابت ہےاور نہ کوئی شخص ایک میت کے لیے اس کی طرف سے نمازیں پڑھ سکتا ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص سخت بیمار ہو اور وہ رمضان کے روزے نہ رکھ سکے اور وفات ہو جائے تو اس کے لیے اس کا ولی روزے رکھ سکتا ہے اور شیخ گوہر رحمٰن  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ میت کی طرف سے اس کا وارث یا ولی روزے بھی نہیں رکھ سکتا۔

میں شیخ القرآن مولانا عبد السلام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی بیان کردہ دو احادیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ کے سامنے پیش کروں گا اور شیخ گوہر رحمٰن  رحمۃ اللہ علیہ  کی بیان کردہ احادیث بھی پیش کروں گا۔

شیخ زبیر علی زئی صاحب! آپ مہر بانی کر کے جانبین کے دلائل جانچ لیں تطبیق کر دیں جرح و تعدیل بھی کر دیں اور مسئلے کی راجح صورت بھی مدلل پیش کریں۔ کیونکہ اس مسئلہ میں ظاہری تضادنظر آتا ہے۔

شیخ القرآن علامہ عبدالسلام صاحب کے دودلائل

1۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

(من مات وعليه صوم صام عنه وليه)

جو شخص مر جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھے۔(صحیح البخاری ج1ص262صحیح مسلم ج1ص362)

2۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں مر گئی اور اس پر ایک مہینہ کے روزے تھے کیا میں اس کی طرف سے ان روزوں کو ادا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اگر تیری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو کیا تو اس قرض کو اس کی طرف سے ادا کرتا ؟ اس شخص نے جواب دیا ضرور!توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کئے جانے کے زیادہ لائق ہے۔(صحیح مسلم ج1ص362)

شیخ گوہر رحمٰن  رحمۃ اللہ علیہ  کے دلائل تفہیم المسائل سے:

1۔"لا يصلي أحد عن أحد، ولا يصوم أحد عن أحد، ولكن يطعم عنه "

"کوئی شخص دوسرے کی جگہ نہ نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ اس کی جانب سے روزے رکھ سکتا ہے۔لیکن اس کی جانب سے غریبوں کو کھانا کھلا دیا جائے یعنی فدیہ دیا جائے"

(سنن کبری للبیہقی ج4ص257مشکل الآثار جلد 3ص141نصب الرایہ ازامام زیلعی ج2ص463وقال ابن حجر اسنادہ صحیح والدرایہ ص177)

2۔ "عن ابن عمر قال: لا يُصلين أحد عن أحد، ولا يصومن أحد عن أحد، ولكن إن كنت فاعلًا تصدقت عنه أو أهديت"

"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی جانب سے ہر گز نماز نہ پڑھے اور نہ اس کی جانب سے روزے رکھے الایہ کہ تواس کے لیے صدقہ اور قربانی دے سکتا ہے"

(سنن کبری للبیہقی ج4ص257 نصب الرایہ ازامام زیلعی ج2ص463 مشکل الآثار ج 3ص141وقال ابن حجر اسنادہ صحیح والدرایہ ص177)

مہربانی کر کے میرا یہ سوال ضرورماہنامہ الحدیث حضرو میں شائع کریں۔(قاری فضل احد ملاکنڈ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(من مات وعليه صوم صام عنه وليه)

"جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزے ہوں اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔"(صحیح بخاری 1952 صحیح مسلم 1147 ترقیم دارالسلام :2692)

اس حدیث میں"اس پر روزے ہوں"سے مراد دنذر کے روزے ہیں، جس کی تین دلیلیں درج ذیل ہیں۔

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک عورت آئی تو کہا:اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس پر نذر کے روزے (باقی) ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ نے فرمایا:"تمھارا کیا خیال ہے اگر تمھاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کردیتیں تو یہ اس کی طرف سے ادا ہو جاتا؟"اس نے کہا جی ہاں آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: "فصومي عن أمك"پس تم اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھو۔"(صحیح مسلم 1148ترقیم دارالسلام :2696)

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ایک عورت نے سمندری سفر کیا تو ایک مہینہ روزے رکھنے کی نذر مانی پھر وہ روزے رکھنے سے پہلے ہی فوت ہوگئی تو اس کی بہن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آکر یہ واقعہ بیان کیا تو آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اسے حکم دیا کہ وہ اس (اپنی بہن) کی طرف سے روزے رکھے۔

(السنن الصغری للنسائی کتاب الایمان والنذور من نذر ان یصوم ثم مات قبل ان یصوم ج7ص20ح3847عن ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وسندہ صحیح وصحیحہ ابن  خزیمہ:2054)

امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  نے اس مفہوم کی ایک روایت (ح3308 وھوحدیث صحیح)پر "باب في قضاء النذر عن الميت" کا باب باندھنا ہے۔(طبع دارالسلام ص479۔480)

ظاہر ہے کہ حدیث ، حدیث کی تشریح کرتی ہے۔ لہٰذا حدیث مذکور سے مراد نذر کے روزے ہیں۔

2۔حدیث مذکور کی راویہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا:"میری ماں فوت ہو گئی ہیں اور ان پر رمضان کے روزے باقی تھے، کیا میں ان کی طرف سے ان روزوں کی قضا رکھ سکتی ہوں؟"تو انھوں نے جواب دیا نہیں لیکن ان کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دو، یہ اس کی طرف سے تمھارے روزے رکھنے سے بہتر ہے۔

(شرح مشکل الآثار للطحاوی طبعہ جدید 6/178وسندہ حسن وصححہ ابن الترکمانی فی الجوھر النقی 4/257)

راویہ حدیث  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اس فتوے سے یہی ظاہر ہے کہ میت کی طرف سے عام روزے نہیں رکھے جائیں گے بلکہ صرف نذر کے روزے رکھنا جائز ہے۔

دوسری حدیث کے راوی سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

((لا يصلي أحد عن أحد ، ولا يصوم أحد عن أحد ، ولكن يطعم عنه مكان كل يوم مدا من حنطة انتهى))

"کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے لیکن ہردن کے (روزے کے ) بدلے میں اس کی طرف سے گندم کا ایک مد کھانا کھلائے۔

(السنن الکبری للنسائی 2/175ح2918وسندہ صحیح و صححہ الحافظ ابن حجر فی الدرایہ 1/283ح375)

ایک مد 53تو لے وزن کا ایک پیمانہ ہے۔

3۔امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  دونوں نے فرمایا:

"إذا كان على الميت نذر صيام يصام عنه، وإذا كان عليه قضاء رمضان أُطعم عنه"

اگر میت پر نذر کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے روزے رکھے اور اگر رمضان کی قضا باقی ہو تو اس کی طرف سے روزوں کا فدیہ کھلائے۔

(سنن ترمذی 718 واللفظ لہ مسائل الامام احمد و اسحاق روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج 1/288فقرہ 679)

امام ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 656ھ) نے فرمایا:

"احمد واسحاق وابو ثور والليث وابو عبيد واهل الظاهر يصام عنه الا انهم خصصوه بالنذر" 

اور اس حدیث کے مطابق احمد (بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) لیث (بن سعد)اور ابو عبید کا قول ہے الایہ کہ انھوں نے اس حدیث کی تخصیص نذر کے روزوں کے ساتھ کی ہے۔(المفہم ج3ص208تحت ح1014)

حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  راویان حدیث کے فتاوی اور سلف صالحین کے فہم سے ثابت ہوا کہ جواب کے شروع میں مذکور حدیث سے مراد یہ ہے کہ میت کے ورثاء صرف اس صورت میں میت کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں جب اس پر نذر کے روزے باقی ہوں، رہے رمضان کے روزے تو یہ میت کی طرف سے نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ہر روزے کے بدلے میں فدیہ کھلایا جائے گا۔

جناب گوہر رحمٰن صاحب نے سید نا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف منسوب جس مرفوع روایت کا حوالہ سنن کبری از بیہقی ،مشکل الآثار نصب الرایہ اور الدرایہ سے پیش کیا ہے تو عرض ہے کہ ان تمام کتابوں میں یہ روایت:

"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم" کے الفاظ کے ساتھ نہیں بلکہ صرف سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فتوی ہے لہٰذا اسے مرفوع یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث کے طور پر بیان کرنا غلط ہے اور زیلعی حنفی نے بھی لکھا ہے کہ:"غریب مرفوعاً" یعنی اس کا مرفوع ہونا معلوم نہیں ہے۔(دیکھئے نصب الرایہ2/463)

آپ نے گوہر رحمٰن صاحب کی بیان کردہ دونوں روایات "تفہیم المسائل حصہ اول" سے نقل کی ہیں یہ میرے نسخے کے صفحہ 123۔124۔پر ہیں (طبع جنوری 19993ء)

گوہر رحمٰن صاحب کو بڑی غلطی لگی انھوں نے موقوف کو مرفوع یعنی صحابی کے فتوے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث بنا  ڈالا ہے۔

تنبیہ:سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے فتوے والی روایت کی سند صحیح ہے جیسا کہ فقرہ نمبر2 کے تحت گزر چکا ہے۔

گوہر رحمٰن صاحب نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف منسوب مرفوع روایت مشکل الآثار سنن کبری از بیہقی نصب الرایہ اور الدرایہ کے حوالے سے نقل کی ہے۔(تفہیم المسائل ج1ص124)

حالانکہ ان چاروں کتابوں میں یہ مرفوع روایت موجود نہیں بلکہ عبد الرزاق وغیرہ نے اسے سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے قول اور فتوے کے طور پر نقل کیا ہے۔(دیکھئے نصب الرایہ2/463)

اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: "الصحيح عن ابن عمر موقوف" صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوف ہے(الدرایہ1/283ح375)

فائدہ :

مصنف عبدالرزاق والی روایت امام عبدالرزاق کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام بیہقی   رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا کہ"

"لايصوم أحد عن أحد ولكن تصدقوا عنه من ماله للصوم لكل يوم مسكينا"

کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے لیکن اس کی طرف سے صدقہ کرو ۔ہردن کے روزے کے بدلے میں مسکین کو کھانا کھلاؤ۔السنن الکبری 4/254وسندہ صحیح)

اس روایت کی سند صحیح ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے بغیر کسی سند کے متن میں اضافے والی روایت کو مؤطا میں نقل کیا ہے(1/303وسندہ ضعیف روایۃ یحییٰ بن یحییٰ )

امام ابو الجہم العلاء بن موسیٰ بن عطیہ الباہلی البغدادی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"أن عبد الله بن عمر كان يقول : لا يصوم أحد عن أحد ولا يحج أحد عن أحد"

کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے روزہ نہ رکھے اور کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے حج نہ کرے۔(جزء ابی الجہم 24وسندہ صحیح)

اس کی سند صحیح ہے اور اس قول میں"حج نہ کرے" والی  بات محل نظر ہے بلکہ احادیث مرفوعہ صحیحہ کی روسے یہ ثابت ہے کہ دوسرے کی طرف سے حج بدل کرنا جائز ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والے نے پہلے خود فرض حج کیا ہو۔

حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ  نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی طرف سے فرض نماز نہیں پڑھے گا۔(دیکھئے التمہید9/133)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے موقوف قول کو گوہر رحمٰن صاحب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث قراردینا بھی غلط ہے۔(26/2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔روزہ، صدقۂ فطر  اور زکوٰۃ کے  مسائل-صفحہ143

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ