سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(322) کھڑے ہو کر جوتے پہننا

  • 21215
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 639

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنن ابی داؤد، کتاب اللباس ، باب فی الاشعال میں آیا ہے کہ:

"حدثنا محمد بن عبد الرحيم أبو يحيى أخبرنا أبو أحمد الزبيري حدثنا إبراهيم بن طهمان عن أبي الزبير عن جابر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ينتعل الرجل قائما"

"یعنی جابر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آدمی کو کھڑے ہو کر جوتے پہننے سے منع فرمایا ہے(حدیث :4135)(ڈاکٹر نسیم اختر اسلام آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  سے مروی ہے۔

"قال النسائي : ذكر المدلسين : الحسن ، قتادة ، حجاج بن أرطاة ، حميد ، سليمان التيمي ، يونس بن عبيد ، يحيى بن أبي كثير ، أبو إسحاق الحكم بن عتيبة ، مغيرة ، إسماعيل بن أبي خالد ، أبو الزبير ابن ابي نجيح ابن جريج ابن ابي عروبة هشيم سفيان بن عيينة " (سیراعلام النبلاء ج7ص74)

یعنی ابو الزبیر ، قتادہ اور سفیان بن عیینہ وغیرہم مدلسین میں سے تھے۔ (تفصیل کے لیے میری کتاب الفتح المبین دیکھیں)امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ نے ابو الزبیر رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں فرمایا:

وکان یدلس" اور وہ تدلیس کرتے تھے(السنن الکبری 1/640،ح 210)

تدلیس کے بارے میں راجح اصول یہی ہے کہ مدلس کی عن والی روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"فقلنا:لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول فيه ؛حدثنى : او سمعت"

پس ہم نے کہا: ہم کسی مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہہ دے۔(الرسالۃ ص380فقرہ نمبر 1035)

یعنی سماع کی تصریح کے بغیر مدلس کی روایت غیر مقبول ہے۔

لہٰذا ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  والی روایت مذکورہ کی سند ابو الزبیر کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس ضعیف روایت کے تین صحابہ ، سیدنا انس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے ضعیف شواہد بھی ہیں جن پر علی الترتیب تبصرہ درج ذیل ہے۔

شاہد نمبر1۔

سفیان(الثوری)عن عبد اللہ بن دینار عن ابن عمر۔ الخ(سنن ابن ماجہ ح3619)علی بن عبد اللہ المدینی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"ان سفیان کان یدلس"

بے شک سفیان (ثوری)تدلیس کرتے تھے۔(الکفایہ ص362 وسندہ صحیح)

امام سفیان ثوری کے شاگردوں ابو عاصم (سنن الدارقطنی ج 3ص102)یحییٰ بن سعید القطان اورعبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی انہیں مدلس قراردیا ہے۔دیکھئے تہذیب التہذیب(ج11ص192ءج4ص102) وغیرہ لہٰذا یہ سند امام سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

شاہد نمبر2۔عن انس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ

سند اول

"معمر عن قتاده عن انس رضي الله عنه" (سنن ترمذی 1776)

یہ سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"لايصح هذ الحديث "اور یہ حدیث صحیح نہیں ہے(حوالہ مذکورہ)

سنددوم:

عیینہ بن سالم عن عبید اللہ بن ابی بکر عن انس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  الخ

(کشف الاستارعن زوائد البزارج 3ص366ح 2959و مجمع الزوائد ج5 ص139)

اس سند کے راوی عیینہ بن سالم صاحب الالواح پر جرح منقول ہے۔

دیکھئے لسان المیزان (ج4ص444ترجمہ نمبر 6356)اور توثیق کسی سے ثابت نہیں۔

لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔

شاہد نمبر3۔

عن ابی ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  :۔

سند اول:

"حدثنا الحارث بن نبهان، عن معمر، عن عمار بن ابي عمار عن أبي هريرة رضي الله عنه .....الخ" (الترمذی:1775)

امام نسائی نے کہا:حارث بن نبھان : متروک الحدیث ہے۔(کتاب الضعفاء المتروکین ص165ترجمہ نمبر 116)

لہٰذا یہ سند سخت ضعیف ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

سند دوم :

"ابو معاوية عن الاعمش عن ابی صالح عن ابي هريرة رضي الله عنه...... الخ" (ابن ماجه:3618)

ابو معاویہ ثقہ تھے لیکن تدلیس بھی کرتے تھے۔

(دیکھئے طبقات ابن سعد ج6ص392وتہذیب التہذیب ج 9ص121)

لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔ اعمش بھی مدلس تھے اور ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے۔ ابو صالح سے ان کی روایت ہو یا کسی اور سے تصریح سماع کے بغیر ان کی (صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ ہر کتاب میں)ہر روایت ضعیف ہوتی ہے۔

سند سوم:

سعيد بن بشير عن عمران بن داورعن سيف بن كريب  عن ابي هريرة رضي الله عنه.....الخ

(المعجم لابن الاعرابی ج1ص 236،237،ح 158، دوسرا نسخہ ح159)

اس میں سعید بن بشیر جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اور سیف بن کریب کے حالات نہیں ملے لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔

سند چہارم:

"عروہ بن علی السهمي  عن ابي هريرة رضي الله عنه.....الخ"(الضعفاءللعقیلی ج3 ص364)

عروہ بن علی کے بارے میں امام عقیلی نے کہا"مجہول بالنقل "یعنی یہ مجہول راوی ہے۔اس کی سند کا ایک راوی محمد بن حمید (الرازی)جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔

میرے علم کے مطابق کھڑے ہو کر جوتے پہننے کی ممانعت میں یہی احادیث مروی ہیں اور شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے السلسلۃ الصحیحہ قراردیا ہے جو کہ اصول حدیث کی روسے صحیح نہیں ہے۔

بعض لوگوں نے سفیان ثوری اور اعمش کی تدلیس کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ بے سود ہے۔ ثابت شدہ حقیقت کا انکار کرنا علمی میدان میں کوئی وزن نہیں رکھتا اور بعض لوگوں نے ان تمام ضعیف سندوں کو ملا کر اس حدیث کو حسن کا درجہ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے یہ بھی اصول حدیث کی روسے غلط ہے۔

حافظ ابن کثیر الدمشقی  رحمۃ اللہ علیہ  فرمایا:

"(قلت) يكفي في المناظرة تضعيف الطريق التي أبداها المناظر، وينقطع؛ إذ الأصل عدم ما سواها، حتى يثبت بطريق أخرى والله أعلم"

میں نے کہا :مناظرہ میں مخالف جو سند پیش کرے اس کا ضعیف ثابت کر دینا ہی کافی ہے۔وہ لا جواب ہو جائے گا۔ کیونکہ اصل یہی ہے کہ اس روایت کے علاوہ دوسری کوئی سند نہیں الا یہ کہ دوسری سند سے یہ بات ثابت ہو جائے واللہ اعلم(اختصار علوم الحدیث ص85نوع 22)

خلاصہ یہ کہ یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے(شہادت ستمبر2001)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ605

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ