سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(313) حاکم ترمذی اور ابن حبان کا تساہل؟

  • 21206
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3385

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام حاکم  رحمۃ اللہ علیہ  کی تصحیح اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی تحسین اور امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  کی توثیق کا جمہور محدثین کے نزدیک کیا اعتبار ہے؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

"الحمد لله رب العالمين والصلوٰة والسلام علي رسوله الامين‘اما بعد:

مذکورہ تینوں محدثین کے بارے میں تحقیقی جواب علی الترتیب درج ذیل ہے۔

1۔معرفتہ علوم الحدیث تاریخ نیشاپور، المدخل اور المستدرک علی الصحیحین  جیسی کتب مفیدہ کے مصنف ابو عبد اللہ محمد بن حمدو یہ بن نعیم عرف ابن البیع النیسابوری  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی405ھ)کے بارے میں محدثین کرام کے درمیان اختلاف تھا۔

جرح کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔ابو الفضل بن الفلکی الہمذانی(علی بن الحسین بن احمد بن الحسن  رحمۃ اللہ علیہ  متوفی 427ھ)سے روایت ہے کہ"وكان ابن البيِّـع يميلُ إلى التشيُّع"حاکم تشیع کی طرف مائل تھے۔(تاریخ بغداد5/474)ت3024)

یہ قول ابن الفلکی سے ثابت نہیں ہے کیونکہ "بعض اصحابنا" مجہول راوی ہے۔

2۔محمد بن طاہر المقدسی الحافظ نے کہا:حاکم نے کہا:حدیث الطیر(سیدنا علی  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور پرندے کے گوشت )والی حدیث صحیح ہے اور صحیحین میں یہ روایت نہیں لی گئی۔

ابن طاہر نے کہا:یہ موضوع حدیث ہے جسے کوفہ کے ساقط راویوں نے مشہور اور مجہول راویوں کی سند کے ساتھ انس (رضی اللہ  تعالیٰ عنہ )وغیرہ سے بیان کیا ہے۔ حاکم کی حالت دو باتوں سے خالی نہیں ہے یا تو وہ صحیح سےجاہل تھا لہٰذا اس کے قول پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔یا وہ جانتا تھا پھر اس کے خلاف کہتا تھا تو وہ اس طرح معاند کذاب بن جاتا ہے(المنتظم لا بن الجوزی 15/110)

ابن طاہر کی یہ جرح کئی وجہ سے مردود ہے مثلاً:

اول:حاکم کی وفات کے بعد ابن طاہر المقدسی448ھ میں پیدا ہوئے تھے لہٰذا ان کی حاکم سے بے سند نقل مردود ہے۔

دوم:حدیث الطیر کی بہت سی سندوں میں سے تاریخ دمشق لا بن عساکر(45/192)میں امام دارقطنی والی روایت حسن لذاتہ ہے۔

اس روایت کی مختصر تحقیق درج ذیل ہے۔

1۔ابن عساکر کے استاذابو غالب بن البناء ثقہ تھے۔دیکھئے سیرا علام النبلاء (10/603)

2۔ابن البناء کے استاذابو الحسین بن الآبنوسی ثقہ تھے۔ دیکھئے النبلاء (17/85)

3۔ابن الآبنوسی کے استاذ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  مشہور ثقہ امام تھے۔

4۔امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  کے استاذ محمد بن مخلد بن حفص الدوری ثقہ تھے۔دیکھئے تاریخ بغداد (3/311ت 1406)

5۔محمد بن مخلد کے استاذ حاتم بن اللیث بن الحارث الجوھری ثقہ تھے۔دیکھئے تاریخ بغداد (8/245ت 4346)

6۔حاتم بن اللیث کے استاذ عبید اللہ بن موسیٰ بن باذام العبسی الکوفی صحیحین کے راوی اور ثقہ و صدوق تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"ثقہ کان یتشیع "وہ ثقہ تھے(اور تشیع کے قائل تھے۔(تقریب التہذیب:4345)

ثقہ و صدوق عند الجمہور روای پر تشیع وغیرہ کی جرح سے اس کی حدیث ضعیف نہیں ہو جاتی بلکہ حسن یا صحیح رہتی ہے لہٰذا یہاں تشیع کی جرح مردودہے۔

7۔عبید اللہ بن موسیٰ کے استاذعیسیٰ بن عمرالاسدی الہمدانی ابو عمر القاری الاعمیٰ ،صاحب الحروف ثقہ تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب(5314)

8۔عیسیٰ بن عمر القاری کے استاذ اسماعیل بن عبد الرحمٰن بن ابی کریمہ السدی(سدی کبیر)صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے۔ نیز دیکھئے تحریر تقریب التہذیب(1/136ت436)

آپ پر تشیع کا الزام ہے جو کہ جمہور کی توثیق کے بعد یہاں مردود ہے۔

فائدہ:

جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی پر اگر بدعتی ہونے کا اعتراض ہواور اس کی روایت بظاہر اس کے مسلک کی تائید میں ہو۔ تب بھی صحیح یا حسن ہوتی ہے

تفیصل کے لیے دیکھئے "التنکیل بمانی تانیب الکوثری من الاباطیل "(1/42۔52)

اور اس سلسلے میں جوزجانی(بدعتی )کااصول صحیح نہیں ہے لہٰذا روایت مذکورہ کو تشیع کا الزام لگا کر رد کرنا غلط ہے۔

9۔اسماعیل بن عبد الرحمٰن السدی کے استاذ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  مشہور صحابی تھے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  کی بیان کردہ اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے جس میں آیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تحفے میں پرندے لائے گئے تو آپ نے انھیں تقسیم کر دیا اور ایک پرندہ رکھ لیا پھر فرمایا:اے میرے اللہ! میرے پاس اس پر ندے کا گوشت کھانے کے لیے وہ شخص بھیج جسے تو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہے۔

پھر علی بن ابی طالب( رضی اللہ  تعالیٰ عنہ )تشریف لائے تو انھوں نے آپ کے ساتھ وہ پرندہ کھایا۔

امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:اس حدیث کو صرف عیسیٰ بن عمر سدی سے بیان کیا ہے۔اس حدیث کے بہت سے شواہد بھی ہیں مثلاً:

1۔ "حديث قطن بن نسير بسنده عن عبدالله بن المثنيٰ عن عبدالله بن انس بن مالك عن ابيه ....الخ"

(دیکھئے الکا مل لابن عدی 2/570دوسرا نسخہ 2/385)

اس میں قطن بن نسیر جمہور کے نزدیک ضعیف ہے اور باقی سند حسن لذاتہ ہے۔

2۔ "حديث الطبراني بسنده عن يحيٰ بن ابي كثير عن انس بن مالك رضي الله عنه....الخ"(المعجم الاوسط 2/442،443ح 1765)

اس کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔

اول:امام طبرانی  رحمۃ اللہ علیہ کاا ستاذ ابو بکر احمد بن الجعد الو شاء نامعلوم التوثیق ہے۔

دوم:یحییٰ بن ابی کثیر کی سیدنا انس)سے روایت منقطع و مدلس ہے۔

3۔ "حديث الطبراني بسنده عن سفينة رضي الله عنه.....الخ"(المعجم الکبیر7/82ح6437)

اس کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔

اول:طبرانی کے استاذ عبید العجلی کی توثیق نامعلوم ہے۔

دوم:سلیمان بن قرم ضعیف ہے۔

جو لوگ جمع تفریق کر کے حدیث کو حسن الغیرہ بنا لیتے ہیں ان کے اصول سے بھی حدیث الطیرحسن بنتی ہے۔ حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جوابات میں ترمذی والی روایت کو"وھوحدیث حسن"قراردیا ہے۔(دیکھئے "اجوبۃ الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  عن احادیث المصابیح "المطبوع مع المشکوۃ تخریج الالبانی3/179،الطبعۃ الثانیہ 1405ھ)

تنبیہ:

حدیث الطیر کی تصحیح پر ایک دیوبندی فخر الدین الغلانی نے عربی زبان میں"نیل الخیربحدیث الطیر "نامی کتاب لکھی ہے جو ہمارے پاس موجود ہے۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن طاہر کا حدیث الطیر کی وجہ سے حاکم نیشاپوری پر اعتراض مردودہے۔

3۔روایت ہے کہ شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد الہروی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

ابو عبد اللہ الحاکم حدیث میں امام اور افضی خبیث ہے(لسان المیزان 5/233،دوسرا نسخہ 6/251)

یہ قول تین وجہ سے مردود ہے۔

اول:باسند صحیح ابن طاہر سے مروی نہیں ہے۔

دوم:حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے رد کر دیا ہے دیکھئے میزان الاعتدال (3/608)

سوم:یہ قول جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔

4۔بعض علماء نے حاکم کی تصحیح فی المستدرک پر کلام کیا ہے جس کا ان کی عدالت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حاکم کے بارے میں ابو عبد الرحمٰن السلمیٰ (ضعیف)کی روایت بھی مردود ہے۔

اس جرح کے مقابلے میں جمہور کی توثیق کے بعض حوالے درج ذیل ہیں۔

1۔خطیب بغدادی نے کہا:"وکان ثقه"اور وہ(حاکم)ثقہ تھے۔(تاریخ بغداد5/473ت 4024)

2۔ابن الجوزی نے کہا: "وکان ثقه"اور وہ ثقہ تھے۔(المنتظم 15/109ت 3059)

3۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے "صح " کی رمز لکھ کر ان کی تو ثیق ثابت کی اور فرمایا:

"إمامٌ صدوق، لكنه يصحّح في مُستدرَكِهِ أحاديثَ ساقطة"

"وہ سچے امام تھے لیکن وہ اپنی مستدرک میں ساقط روایات کو صحیح کہتے تھے الخ۔(میزان الاعتدال 3/608)

اور فرمایا:

"الامام الحافظ الناقد العلامة شيخ المحدثين..."(سیراعلام النبلاء17/1163)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے مزید لکھا:

"وكان من بحور العلم على تشيع قليل فيه"

وہ علم کے سمندروں میں تھے اور ان میں تھوڑا سا تشیع تھا ۔(النبلاء 10/165)

4۔حافظ ابن کثیر نے انھیں ،حفظ ، امانت ، دیانت اور ثقاہت وغیرہ سے موصوف قراردیا ۔ دیکھئے البدایہ والنہایہ (نسخہ محققہ 13/24)

5۔ابو سعد السمعانی نے حاکم کو فضیلت ، علم معرفت، حفظ اور فہم سے متصف قراردیا ۔دیکھئے الانساب (1/432)البیع)

6۔حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا دفاع کیا اور انھیں جلیل القدر قراردیا ۔

دیکھئے لسان المیزان (5/233)دوسرا نسخہ 6/251)

7۔ابو الحسن عبدا لغافر بن اسماعیل الفارسی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 529ھ) نے کہا:

"إمام عصره في الحديث العارف به حق معرفته"

آپ اپنے زمانے میں اہل حدیث کے امام اور حدیث کی معرفت کا حق رکھتے تھے۔(الحلقۃ الاولیٰ من تاریخ نیسابورالمنتخب من السیاق ص5)

8۔عبدالوہاب بن علی بن عبدالکافی السبکی(متوفی771ھ)نے کہا:

"كان إماما جليلا وحافظا حفيلا اتفق على إمامته وجلالته وعظم قدره"

آپ جلیل القدر امام اور بہت بڑے حافظ تھے، آپ کی امامت ، جلالت اور عظمت قدر پر اتفاق ہے۔(طبقات الشافعیۃ الکبری ج2ص443ت329)

9۔ابو الخیر محمد بن الجزری(متوفی 833ھ) نے کہا:

"كان إماماً ثقة صدوقاً إلا أن في مستدركه أحاديث ضيعفة"

وہ ثقہ صدوق امام تھے لیکن ان کی (کتاب )مستدرک میں ضعیف حدیثیں ہیں۔(غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء ج 2ص185ت 3178)

10۔امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک حدیث کے تحت حاکم، کو ثقہ کہا:

دیکھئے السنن الکبری للبیہقی (2/73)اور نور العین (طبع جدید ص119، 120)

جمہور کی اس تو ثیق کے بعد حاکم نیشاپوری پر جرح مردود ہے اور خلاصہ یہ کہ وہ ثقہ و صدوق شیعی تھے۔

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  ، ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ  اور جوزجانی  رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہا کہ یہ متعنت (متشدد)تھے اور پھر فرمایا:

"وقسم في مقابلة هؤلاء، كأبي عيسى الترمذي، وأبي عبد الله الحاكم، وأبي بكر البيهقي، متساهلون. وقسم كالبخاري، وأحمد بن حنبل، وأبي زرعة، وابن عدي، معتدلون منصفون"

اور ان کے مقابلے میں ایک قسم مثلاً ابو عیسیٰ الترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  ، ابو عبد اللہ الحاکم  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابو بکر البیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  متساہل تھے اور ایک قسم مثلاً بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  ، ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ  (لرازی رحمۃ اللہ علیہ )اور ابن عدی  رحمۃ اللہ علیہ معتدل، انصاف کرنے والے تھے۔

(ذکر من یعتمد قولہ الجرح والتعدیل ص159،یا ص2)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے اصول حدیث میں اپنی ایک مشہور کتاب میں لکھا ہے۔

"ومنهم من هو معتدل، ومنهم من هو متساهل ".

فالحاد منهم (المتعنت) : يحيى بن سعيد القطان , وابن معين , وأبو حاتم , وابن خراش وغيرهم

والمعتدل فيهم : احمد بن حنبل , البخاري , وأبو زرعة

والمتساهل كالترمذي والحاكم والدارقطني في بعض الأوقات"

اور ان محدثین میں بعض معتدل اور بعض متساہل تھے۔

ان میں یحییٰ بن سعید(القطان)ابن معین ، ابو حاتم(الرازی)اور ابن خراش (الرافضی) متشدد تھے۔

احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ ،بخاری  رحمۃ اللہ علیہ اور ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ  (الرازی رحمۃ اللہ علیہ ) معتدل تھے۔

ترمذی ، حاکم  رحمۃ اللہ علیہ اور بعض اوقات میں دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ متساہل تھے(الموقظہ ص83)

تنبیہ:

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کا بیان محل نظر ہے۔

ذہبی کے بعد عام علماء انھی کے نقش قدم پر چلے مثلاً سخاوی نے کہا:

"وقسم ثان متسمع كالترمذي والحاكم

وقسم معتدل ; كأحمد والدارقطني وابن عدي"

اور ان میں سے ایک قسم متساہل تھی مثلاً ترمذی، اور حاکم ، میں (سخاوی)نے کہا:اور مثلاً ابن حزم، اور ایک قسم معتدل تھی مثلاًاحمد (بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  ) دارقطنی اور ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ۔

(الاعلان بالتوبیح لمن ذم التاریخ ص168، المتکلمون فی الرجال ص137)

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ حاکم نیشا پوری ثقہ و صدوق ہونے کے ساتھ حدیث پر صحیح کا حکم لگانے میں متساہل تھے۔

تنبیہ:

میزان الاعتدال اور لسان المیزان وغیرہما میں حاکم کے بارے میں بہت سے اقوال باسند صحیح ثابت نہیں ہیں لہٰذا بغیر تحقیق کے ان اقوال سے بچ کر رہیں۔

2۔امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 279ھ)ثقہ متفق علیہ تھے دیکھئے الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی (3/905)

انھیں حافظ ابن حبان(الثقات 9/153)اور ذہبی (میزان الاعتدال2/678)

وغیرہمانے ثقہ قراردیا۔

 امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ کے تصحیح و تحسین میں تساہل کا ذکر میزان الاعتدال میں بھی ملتا ہے۔ مثلاً حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"

"فلهذا لا يعتمد العلماء على تصحيح الترمذي"

پس اس وجہ سے ترمذی کی تصحیح پر علماء اعتماد نہیں کرتے۔(میزان الاعتدال 3/407ترجمہ کثیر بن عبد اللہ العوفی)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے مزید کہا:

"فلا يُغتَرّ بتحسين الترمذي. فعند المحاقَقَةِ غالبُها ضعاف"

"پس ترمذی کی تحسین سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ محققین کے نزدیک ایسی غالب(عام ،اکثر)روایتیں ضعیف ہیں۔(میزان الاعتدال 4/416ترجمۃ یحییٰ بن یمان)

امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ کو متساہل قراردینے میں ذہبی کے بعد عام علماء انھی کے نقش قدم پر چلے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  متساہل تھے۔

3۔حافظ محمد بن حبان ابو حاتم البستی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی354ھ)کے بارے میں محدثین کرام کے درمیان اختلاف تھا۔

ابو الفضل احمد بن علی بن عمرو السلیمانی ، یحییٰ بن عمار ، ابو اسماعیل الہروی، ابو علی النیسابوری ، محمد بن طاہر المقدسی اور عبدالصمد بن محمد بن محمد بن صالح (؟)نے ان پر جرح کی بلکہ سلیمانی نے انھیں کذابین میں شمار کر کے ابو حاتم سہل بن السر الحافظ سے نقل کیا:

"لاتكتب عنه فانه كذاب" "اس سے نہ لکھو کیونکہ وہ کذاب ہے"

(معجم البلدان لیاقوت الحموی 1/419)

ابو حاتم سہل بن السری بن الخضر الخداء البخاری الحافظ کی صریح تو ثیق کہیں نہیں ملی اور ثقہ محدث سلیمانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی لکھا :

"رأيت للسليماني كتابا فيه حط على كبار ، فلا يسمع منه ما شذ فيه"

میں نے سلیمانی کی کتاب دیکھی ہے جس میں اکابر پر جرح ہے لہٰذا ان کی شاذبات کو نہ سنا جائے۔(سیراعلام النبلاء17/202)

بعض کی اس جرح کے مقابلے میں جمہور کی توثیق درج ذیل ہے۔

1۔خطیب بغدادی نے حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں کہا:

"كان ثقة ثبتا فاضلا فهما "

"اور آپ ثقہ ثبت فاضل سمجھدار تھے۔(تاریخ دمشق لا بن عساکر 55/189، وسندہ صحیح)

2۔ان کے شاگرد حاکم نیشاپوری نے ان سے اپنی کتاب المستعدرک علی الحسین(2/452ح3688)میں روایت لی اور کہا:"صحیح علی شرط مسلم"

معلوم ہوا کہ وہ اپنے شاگرد حاکم کے نزدیک ثقہ و صدوق تھے۔

حاکم نے کہا:آپ لغت ، فقہ ، حدیث اور وعظ میں علم کا خزانہ تھے اور عقل مند مردوں میں سے تھے۔(تاریخ دمشق 55/189، وسندہ صحیح تاریخ نیشا پورطبقہ شیوخ الحاکم ص401ت693)

نیز دیکھئے الانساب للسمعانی (1/349)اور تاریخ الاسلام للذہبی (26/112)وغیرہما حاکم نے مزید کہا:"

"أبو حاتم كبير في العلوم، وكان يحسد بفضله وتقدمه"

ابو حاتم (ابن حبان )علم میں بڑے تھے اور آپ کی فضیلت اور علم میں)آگے بڑھنے کی وجہ سے آپ سے حسد کیا جاتا تھا۔(تاریخ دمشق 55/190، وسندہ صحیح تاریخ نیشا پورص402)

3۔الضیاء المقدسی نے آپ سے اپنی مشہورکتاب المختارۃ میں روایتیں لیں۔ مثلاً دیکھئے ج1 ص399 ح 282،ج2ص377 ح 759)

4۔حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کی بیان کردہ ایک حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا:

دیکھئے تلخیص المستدرک (2/452)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:امام علامہ حافظ بہترین روایتیں بیان کرنے والے خراسان کے شیخ(سیراعلام النبلاء16/93) نیز دیکھئے تذکرۃ الحفاظ (3/920ت879)وغیرہ

5۔حافظ ابن ماکولا نے کہا:"وكان من الحفاظ  الاثبات" اوروہ (ابن حبان )ثقہ حفاظ میں سے تھے۔(الاکمال 2/316)

حافظ ابن ماکولا نے مزید کہا: حافظ جلیل کثیر التصانیت"آپ کثرت سے کتابیں لکھنے والے جلیل الشان حافظ تھے۔(الاکمال 1/432، تاریخ دمشق 55/190)

6۔ حافظ ابو سعید السمعانی نے کہا:

"إمام عصره، صنف تصانيف لم يسبق إلى مثلها"

"وہ اپنے زمانے کے امام تھےآپ نے ایسی کتابیں لکھیں جیسی آپ سے پہلے کسی نے نہیں لکھی تھیں۔(الانساب ج1ص348،349بست)

7۔یاقوت الحموی نے کہا: "كان بحراً في العلوم" وہ علوم کا دریا تھے۔"(معجم البلدان 1/415)

8۔ابن اثیر الجزری نے کہا:وہ اپنے زمانے کے امام تھے، آپ نے ایسی کتابیں لکھیں جیسے آپ سے پہلے کسی نے نہیں لکھیں۔(اللباب فی تہذیب الانساب 1/105)

9۔حافظ ابن کثیر نے کہا:"

"واحد الحفاظ الكبار المصنفين المجتهدين"

اور وہ بڑے حفاظ ،مصنفین(اور) مجتہدین میں سے تھے۔

(البدایۃ والنہاریہ 12/227وفیات 354ھ)

10۔عبد الوہاب بن علی السبکی نے کہا:"الحافظ الجلیل الامام۔"(طبقات الشافعیۃ الکبری 2/100ت125)

11۔ابن العماد الحنبلی نے کہا:" صحیح (ابن حبان )والے آپ ثقہ حافظ امام (حدیث میں) حجت تھے۔(شذرات الذہب 3/16)

12۔ابن عساکر نے لکھا۔"

"أحد الأئمة الرحالين والمصنفين المحسنين"

آپ کثرت سے سفر کرنے والے اماموں سے ایک اور بہترین مصنفین میں سے تھے۔(تاریخ دمشق 55/187)

13۔فقیہ احمد بن محمد بن علی الطبسی نے انھیں "شیخ"کہا ۔دیکھئے تاریخ دمشق (55/191)

ان کے علاوہ اور بھی کئی علماء سے ان کی تعریف و ثناء مروی ہے مثلاً ابو سعید عبد الرحمٰن بن محمد الادریسی وغیرہ۔

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ ثقہ و صدوق تھے اور جمہور کی توثیق کے مقابلے میں ان پر جرح مردود ہے۔

حاکم نیشاپوری کے تذکرہ میں گزر چکا ہے کہ حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ اور سخاوی نے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  کو متساہل قراردیا ۔ ان کے علاوہ دوسرے علماء نے بھی انھیں متساہل (اور بعض اوقات متشدد)قرار دیا ہے۔ذہبی عصر شیخ عبد الرحمٰن بن یحییٰ المعلمی الیمانی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق کے پانچ درجے مقرر کیے۔

1۔جنھیں وہ صراحتاً مستقیم الحدیث اور متقن وغیرہ کہتے تھے۔

2۔وہ راوی جو ان کے اساتذہ میں سے تھے جن کی مجالس میں ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  بیٹھتے تھے۔

3۔کثرت حدیث کی وجہ سے مشہور راوی تھے۔

4۔ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس راوی کو اچھی طرح جانتے تھے۔

5۔جو ان چاروں اقسام کے علاوہ (مثلاً مجہول و مستور)تھے۔

دیکھئے التنکیل (ج1ص437،438ت199)

اس سے معلوم ہوا کہ مجہول اور مستور روایوں کی توثیق میں امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  متساہل تھے لہٰذا ایسے مقام پر اگر وہ منفرد ہو تو ان کی تو ثیق مقبول نہیں ہے۔

بعض ثقہ و صدوق راویوں پر امام ابن حبان کی جرح تشدد پر مبنی قراردے کر رد کر دی گئی تھی۔

خلاصۃ التحقیق:

حاکم  رحمۃ اللہ علیہ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ توثیق و تصحیح میں متساہل تھے لہٰذا جس روایت کی تصحیح یا راوی کی توثیق میں ان کا تفرد ہو تو یہ مقبول نہیں ہے لیکن جس راوی کی توثیق پر دو یا زیادہ جمع ہوں اور مقابلے میں جمہور کی صریح جرح نہ ہو تو ایسا راوی صدوق حسن الحدیث ہوتا ہے۔

فائدہ:

ہمارے نزدیک بعض محدثین کو متساہل یا متشدد وغیرہ قرار دینے کے چکر سے یہ بہتر ہے کہ ہر راوی کے بارے میں تعارض اور عدم تطبیق کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ترجیح دی جائے۔ اس طرح نہ تو کوئی تعارض واقع ہوتا ہے۔ اور نہ اسماء الرجال کا علم بازیچہ اطفال بنتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ (10/جنوری 2009ء)(الحدیث:59)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ572

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ