سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) قیمتوں کو کنٹرول کرنا

  • 20874
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 969

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتوں کا تعین کر دینا اسلام کی روسے درست ہے؟ جیسا کہ آج کل بازاروں میں گورنمنٹ کی طرف سے اشیاء کی قیمتیں متعین کر کے دکانوں پر نصب کر دی جاتی ہیں۔قرآن و سنت کی روسے اس مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے۔(عبد اللہ اسلام آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بازار سے ضرورت کی اشیاء کے غائب اور مہنگا ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت بعض اشیاء پر کنٹرول(Monoply)حاصل کر لیتی ہے اور ضرورت کے مطابق عوم الناس  کو مہیا نہیں کر سکتی جس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹنگ ہوتی۔ حالانکہ بازار سے کوئی چیز بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ خفیہ طریقے سے مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے نقصانات زیادہ ہو جاتے ہیں اور عوام الناس ضرورت کی اشیاء کو آسانی سے حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک دور میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں اشیاء کے نرخ بڑھ گئے جس پر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے آکر شکایت کی جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔کہ:

"عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: غَلَا السِّعْرُ فِي المَدِينَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّم، فَقَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللهِ غَلَا السِّعْرُ، فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّم: «إِنَّ اللهَ هُوَ المُسَعِّرُ القَابِضُ البَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللهَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ"

(ابو داؤد3/272(3451)ترمذی 3/605،606،ابن ماجہ 2/741(2200)مسند احمد 3/156،286،مسند ابی یعلیٰ 5/160،245،بیہقی6/29دارمی 2/2249،طبرانی کبیر(761)

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں مدینہ میں چیزوں کے نرخ بڑھ گئے لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !نرخ بہت بڑھنے لگے ہیں۔آپ ہمارے لیے قیمتوں پر کنٹرول کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا وہی مہنگا کرنے والا وہی سستا کرنے والا اور وہی رزق عطا کرنے والا ہے میں اس بات کا امیدوار ہوں۔ کہ میں اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملوں کہ کوئی شخص مجھ سے خون یا مال میں ظلم کی بناء پر مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔"

اس حدیث کے آخری الفاظ قابل توجہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اس بات کا امیدوارہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ پر کسی کا خونی یا مالی حق نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیمتوں پر کنٹرول کرنا گاہک یا دکاندار کسی نہ کسی پر ظلم ہے جس کی ذمہ داری قبول کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  آمادہ نہ تھے۔

حکومت جو اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول حاصل کرتی ہے اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ حکومت اعلان کر دیتی ہے کہ فلاں فلاں اشیاء کی قیمت یہ ہے۔اس سے زیادہ قیمت پر یہ اشیاء فروخت نہیں کی جا سکتیں اس لیے حکومت کی جانب سے اشیاء کی قیمتیں مقرر کر کے باقاعدہ دکانوں پر آویزاں  کر دی جاتی ہیں تاکہ دکاندار اس سے زیادہ قیمت وصول نہ کر سکے۔اور اس بات کی چیکنگ کے لیے گاہے بگاہے حکومت چھاپے بھی مارتی ہے۔لیکن اس کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ دکاندار اس ریٹ پر ردی اور بے کار اشیاء فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر کوئی خریدار خالص اور عمدہ چیز کا طلبگار ہو تو اس سے علیحدہ ریٹ طے کر لیتے ہیں البتہ اگر کوئی حکومتی آدمی آکر دکاندار سے اس مقررہ ریٹ پر چیز طلب کرے تو دکاندار اسے خالص چیز مہیا کرتا ہے تاکہ کہیں وہ پکڑ نہ جائے اور جرمانہ یا سزا سے بچ سکے۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دکاندار اپنی کمیٹی کے افراد کے ذریعے یا کسی اور واسطے سے حکومتی عملہ کو رشوت دے کر اپنی مرضی کے ریٹ لگوا کر اشیاء فروخت کرتے ہیں ان ہر دو صورتوں میں دکاندار جھوٹ ،رشوت اور بددیانتی پر مبنی حرکات رذیلہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور گاہکوں کو نا خالص ردی بے کار اور گھٹیا اشیاء فروخت کرتے ہیں۔

ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ حکومت جس چیز پر کنٹرول کرتی ہے ملک کے مختلف حصوں میں اس کے ڈپو مقرر کر دیتی ہے تاکہ ان ڈپوؤں سے وہ چیز مقررہ ریٹ پر حاصل کی جاسکے اس کے اندر بھی کئی ایک بددیانتیاں جنم لیتی ہیں بلکہ ڈپو ہولڈرز خود کئی بددیانتیوں کے مرتکب ہوتے ہیں وہ اپنے واقف کار اور اعزہ و اقارب وغیرہ کو اشیاء فراہم کرتے ہیں اور دیگر بہت سے افراد کو محروم رکھتے ہیں بلکہ بہت سے افراد اس طرح کے ڈپوؤں پر ذلیل و خوار ہوتے ہیں عورتیں اور بچے سارا سارا دن لائنوں میں لگے ذلت و خواری کو اپنا مقدر بنا رہے ہوتے ہیں اور اکثر ڈپوہو لڈرز ایسے افراد سے رشوت وصول کر کے اشیاء دیتے ہیں یا کوئی فرد کارڈ پراپنا حصہ حاصل نہ کر سکے تو یہ لوگ ایسی اشیاء کو بچا کر بازار میں مختلف دکانداروں کو بلیک کرتے ہیں۔اس طرح چور بازاری کا نیا دروازہ کھل جاتا ہے۔

بہر کیف اس طرح کی کئی ایک خرابیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کی بناء پر خریدار اور گاہک کے درمیان کافی جرائم جنم لیتے ہیں مزید تفصیل کے لیے "تجارت اور لین دین کے مسائل احکام "ملاحظہ کریں قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔

"وقد استدل بالحديث وما ورد في معناها على تحريم التسعير وأنه مظلمة ووجهه أن الناس مسلطون على أموالهم  والتسعير حجر عليهم  والإمام مأمور برعاية مصلحة المسلمين وليس نظره في مصلحة المشتري برخص الثمن أولى من نظره في مصلحة البائع بتوفير الثمن وإذا تقابل الأمران وجب تمكين الفريقين من الاجتهاد لأنفسهم وإلزام صاحب السلعة أن يبيع بما لا يرضى به مناف لقوله تعالى { إلا أن تكون تجارة عن تراض } وإلى هذا ذهب جمهور العلماء". (نیل الاوطار5/248)

"اس حدیث اور جو اس معنی کی احادیث وارد ہوئی ہیں ان سے قیمتوں کے کنٹرول کی حرمت پر استدلال کیا گیا ہے اور قیمتوں پر کنٹرول کرنا ظلم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے مالوں کے تصرف کااختیار دیا گیا ہے اور قیمتوں پر کنٹرول ان پر مالی تصرف میں رکاوٹ ہے۔ جبکہ حاکم وقت مسلمانوں کی خیر خواہی کی رعایت پر مامور ہے۔ اس کے لیے گاہک کو سستے داموں اشیاء کی خریداری میں نظر کرنا دکاندارکے لیے قیمت بڑھانے کی مصلحت میں نظر کرنے سے زیادہ بہتر نہیں۔"

جب یہ دونوں معاملے آمنے سامنے ہوں تو اس وقت لازم ہے کہ فریقین (دکاندار اور گاہک)کو اپنے معاملے میں اجتہاد کا اختیار دیا جائے ۔ سودابیچنے والے کو اس کی مرضی کے خلاف بیچنے پر پابند کرنا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ:"اے ایمان والو!اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس صورت کے تمھاری آپس میں تجارت رضا مندی سے ہو۔"(40۔20)یہ مذہب جمہور علماء کرام کا ہے۔

اسلامی معاشرے میں چونکہ تجارت بالکل آزاد ہے اس لیے ہر چیز کھلے عام فروخت ہونی چاہیے یہ بات بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں تاجر برادری کے لوگ متقی پرہیز گار اور صالح ہوتے تھے اور وہ مناسب ریٹ پر اشیاء فروخت کرتے تھے قیمتوں کا چڑھا ؤ تاجروں کی بدنیتی کی بناء پر نہیں ہوتا تھا بلکہ سامان فروخت کی کمی اور اس کے کثرت طلب کی بنا پر قیمتیں چڑھ گئی تھیں۔(دیکھیں مجلۃ البحوث الاسلامیہ ج1۔عدد رابع ص208)

لیکن جب اشیائے خوردنی میں گرانی اور ریٹ کا اضافہ خود تاجروں کا پیدا کردہ ہو اور عوام الناس کے پاس اشیائےخوردونوش آسانی سے نہ پہنچتے دیتے ہوں تو یہ تاجربرادری کا ظلم ہے اور عوام الناس کی بھلائی کی خاطر ان کا ظلم روکنا عین انصاف اور حکومت کا حق ہے تو اس ایک صورت میں اگر کنٹرول ریٹ ہو جائے تو کوئی شرعی قباحت نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب کنٹرول کرنے سے انکار کیا تھا تو اس کے اسباب قدرتی تھے۔ تاجر برادری کے پیدا کردہ نہیں تھے ۔ باہر سے غلہ نہیں پہنچ رہا تھا۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"کنٹرول ریٹ بعض صورتوں میں ناجائز اور ظلم ہے اور بعض صورتوں میں عدل و انصاف اور جائز ہے۔"

جب کنٹرول ریٹ ایسی صورت پر مشتمل ہو کہ لوگوں کے اوپر ظلم کیا جائے اور ان کو ناحق کسی چیز کو ایسی قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے جسے وہ نا پسند کرتے ہوں یا جو چیز اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مباح رکھی ہے اس سے انہیں روکا جائے تو یہ حرام ہے۔جب کنٹرول ریٹ عد ل وانصاف پر مبنی ہوں جیسا کہ انہیں کسی چیز کا جتنا معاوضہ مناسب ہو۔ اس کے لیے مجبور کیا جائے اور جو کام ان پر حرام ہے اس کے کرنے سے روکا جائے جیسے مناسب معاوضے سے زیادہ قیمت لینا تو یہ کنٹرول جائز بلکہ واجب ہے پہلی صورت کی مثال سیدنا انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی حدیث دلیل ہے جو کہ اوپرذکر کی گئی ہے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"فإذا كان الناس يبيعون سلعهم على الوجه المعروف من غير ظلم منهم، وقد ارتفع السعر إما لقلة الشيء وإما لكثرة الخلق، فهذا إلى الله، فإلزام الناس أن يبيعوا بقيمة بعينها: إكراه بغير حق"

"جب لوگ اپنے سودے کو معروف طریقے پر بغیر ظلم کئے فروخت کریں اور قیمت یا تو اشیاء کی کمی کی وجہ سے بڑھ جائے یا لوگوں کی کثرت کی بناء پر تو یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ایسی صورت میں مخلوق کو مقررہ قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کر نا نا حق ہے۔"

"وأما الثاني: فمثل أن يمتنع أرباب السلع من بيعها ، مع ضرورة الناس إليها إلا بزيادة على القيمة المعروفة ، فهنا يجب عليهم بيعها بقيمة المثل . ولا معنى للتسعير إلا إلزامهم بقيمة المثل . والتسعير هاهنا إلزام - بالعدل الذي ألزمهم الله به "

"اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ سودا بیچنے والے افراد لوگوں کی ضرورت کے باوجود زیادہ قیمت کی وصولی کے بغیر بیچنا روک دیں تو ان پر واجب ہے کہ وہ سودے کو مناسب قیمت پر بیچیں ۔ ایسی صورت میں (جب وہ زیادہ قیمتیں وصول کریں) انہیں مناسب قیمت کا پابند کر دینا چاہیے ان پر لازم ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے لازم ٹھہرائی ہے اسے لازم پکڑیں ۔"(الحسبتہ  لامام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  ص20)

تقریباً یہی بات امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے الطرق الحکمیہ ص244،245میں اور "الفراسہ"میں ذکر کی ہے لہٰذا اگر تاجر برادری کی جانب سے ظلم ہو اور عوام الناس کی ضرورت کے باوجود بلاوجہ اشیاء کی فراہمی مناسب ریٹ پر نہ کریں تو انہیں مقررہ قیمت پر فروخت کا پابند کیا جا سکتا ہے اور اگر منڈیاں آزادہوں گرانی  تاجر برادری کی جانب سے پیدا کردہ نہ ہو بلکہ قدرقی طور پر اشیاء کی قلت یا عوام کی اکثریت کی بنا پر ہوتو اس صورت میں کنٹرول ریٹ درست نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب البيوع۔صفحہ نمبر 480

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ