سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) شوہر کے لا پتہ ہونے پر عورت کیا کرے؟

  • 20870
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1920

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج سے دس سال پہلے محمد رمضان کا نکاح وزیراں بی بی سے نا بالغی کی عمر میں والدین نے کر دیا۔ ابھی رخصتی وغیرہ نہیں ہوئی تھی کہ محمد رمضان گھر سے بھاگ گیا۔ اس کو گھر سے نکلے ہوئے تقریباً پانچ سال ہو گئے ہیں وہ واپس نہیں آیا۔ نہ اس کا کوئی پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ جہاں کہیں بھی کسی نے شک شبہ کی بنا پر ہمیں بتایا ہم گئے وہ آج تک نہیں ملا۔ شنید ہے کہ ایک سال پہلے ضلع لیہ میں ہمارے رشتہ داروں کا ہوٹل ہے وہاں لڑکے کھڑے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ  محمد رمضان آیا تھا اس کے والد کا فوت ہونے کا بھی بتایا اس نے جواب دیا چلو ٹھیک ہو گیا ہے بیمار رہتا تھا بقول ان لڑکوں کے اس کے بعد وہ چلا گیا۔ پتہ نہیں کہاں گیا ہے ؟ محمد رمضان کی والدہ اور بھائی بہت پریشان ہیں کیونکہ اس کا کہیں سے کوئی پتہ نہیں چل رہا ہے لڑکی والے تو بہت زیادہ پریشان ہیں۔ حالات کے پیش نظر آپ خود اندازہ لگائیں کہ لڑکی جوان ہے برائے مہربانی کتاب و سنت کی روسے ہماری راہنمائی کریں کہ ایسے لاپتہ آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے؟آیا اس کی بیوی کا نکاح کسی دوسری جگہ پڑھا جا سکتا ہے اور اس کے لیے کتنا عرصہ انتظار کرنا ہوتا ہے(سائل محمد علی ساندہ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا آدمی جو شادی کے بعد گھر سے لاپتہ ہو جائے اسے شرعاً مفقود الخبر کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور جب اسے اس کے لا پتہ ہونے کی خبر یقینی طور پر ملے اس وقت سے چار سال گزر جانے پر اس کے مرنے کا حکم لگادیا جائے گا اور اس کے بعد چار ماہ دس دن متوفی عنہا زوجہا (یعنی جس عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہو)کی عدت گزار کر عورت دوسری جگہ اگر نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ۔اس مسئلہ کے متعلق کوئی مرفوع روایت تو موجود نہیں البتہ آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  موجود ہیں۔خلیفۃ المسلمین فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے باسناد صحیح ثابت ہے جیسا کہ امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ  عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے نقل کرتے ہیں۔کہ:

"قال عمر رضي الله عنه في امرأة المفقود: “تربص أربع سنين، ثم تعتد أربعة ... أربعة أشهر وعشراً (وهي عدة المتوفى عنها زوجها "

(سنن سعید بن منصور (1/400) (1752)مؤطا الامام مالک ، کتاب الطلاق باب عدۃ التی تفقد زوجہا ص:332،طبع ملتان السنن کبری بیہقی 7/445مصنف عبدلرزاق7/88)

"لاپتہ آدمی کی بیوی چار سال انتظار کرے پھر شوہر کے فوت ہونے والی عدت گزارے یعنی چار ماہ دس دن اور اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کر لے۔"

امام سعید بن المسیب  رحمۃ اللہ علیہ  سے مصنف عبدالرزاق 7/85میں روایت ہے کہ:

"عن ابن المسيب أن عمر وعثمان قضيا في المفقود : أن امرأته تتربص أربع سنين ، وأربعة عشهر وعشرا بعد ذلك ثم تزوج الي آخره" (بیہقی 7/445)

"عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  دونوں خلفاء لا پتہ شوہر کے بار میں فیصلہ دیا کہ اس کی بیوی چار سال انتظار کرے اور اس کے چار ماہ دس دن بعد یعنی متوفی عنہا زوجہا کی عدت گزار کر شادی کر لے۔"

جابر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

"عَنْ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فِي امْرَأَةِ الْمَفْقُودِ - تَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِينَ ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا"

(سنن سعید بن منصور (1/402)(1756)بیہقی 7/445)

"لا پتہ شوہر کی بیوی چار سال انتظار کرے۔"

امام سعید بن المسیب  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: " جب آدمی صف قتال میں لا پتہ ہو جائے تو عورت ایک سال انتظار کرے اور جب لڑائی کی صف کے علاوہ لا پتہ ہو جائے تو چار سال انتظار کرے۔" ( مصنف عبدالرزاق 7/89)

امام قتادہ بن دعامہ السدوسی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں جب ایسی عورت کا معاملہ حاکم تک پہنچایا جائے پھر چار سال گزر جائیں تو ایسے آدمی کا مال اس کے ورثاء میں بانٹ دیا جائے یعنی چار سال کے بعد اس کی موت کا حکم لگادیا جائے گا پھر اس کی جائیداد وغیرہ وارثوں میں تقسیم ہو جائے گی۔  ( مصنف عبدالرزاق 7/90)

امام محمد بن مسلم المعروف ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک بھی یہی ہے (فتح الباری 9/431)

حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فر ماتے ہیں۔

"وثبت أيضاً عن عثمان وابن مسعود في رواية وعن جمع من التابعين كالنخعي وعطاء والزهري ومكحول والشعبي واتفق أكثرهم على أن التأجيل من يوم يرفع أمرها للحاكم، وعلى أنها تعتد عِدة الوفاة بعد أربع سنين"(فتح الباری 9/431)

"یہ بات عثمان اور ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور تابعین کی ایک جماعت جیسے نخعی  رحمۃ اللہ علیہ ، عطاء رحمۃ اللہ علیہ ،زہری رحمۃ اللہ علیہ ،مکحول رحمۃ اللہ علیہ ،اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ ،ثابت ہے اور اکثر کا ان میں سے اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ مقررہ مدت اس دن سے شروع ہو گی جب عورت کا معاملہ حاکم کی طرف سے پہنچایا گیا اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ چار سال گزرنے کے بعد وہ شوہر کی وفات کی عدت گزارے گی۔"

اس کے بر عکس فقہ حنفی میں ہے کہ جس کا شوہر لا پتہ ہو جائے تو اس کی عورت اتنا انتظار کرے کہ شوہر کی عمر نو ے برس کی ہو جائے تو پھر اس کے مرنے کا حکم لگادیا جائے گا۔مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی اپنی کتاب اصل بہشتی زیور چوتھا حصہ صفحہ 30باب 81"میاں کے لا پتہ ہونے کا بیان "کے تحت لکھتے ہیں۔

"اس کا شوہر بالکل لا پتہ ہو گیا معلوم نہیں مر گیا یا زندہ ہے تو وہ عورت اپنا دوسرا نکاح نہیں کر سکتی بلکہ انتظار کرتی رہے کہ شاید آجاوے۔جب انتظار کرتے کرتے اتنی مدت گزر جائے کہ شوہر کی عمر نوے (90) برس کی ہو جائے تو اب حکم لگا دیں کہ وہ مر گیا ہو گا سو اگر وہ عورت ابھی جوان ہو اور نکاح کرنا چاہے تو شوہر کی عمر نوے برس کی ہونے کے بعد عدت پوری کر کے نکاح کر سکتی ہےمگر شرط یہ ہے کہ اس لا پتہ مرد کے مرنے کا حکم کسی شرعی حکام نے لگایاہو۔

اسی بہشتی زیور کے نیچے حاشیہ میں اس مسئلہ کا حوالہ فتاوی عالمگیری 2/915اور ہدایہ 2/602سے دیا گیا ہے لیکن حنفی حضرات کا اپنے اس مسئلہ پر فتویٰ نہیں ہے۔ یہ اس مسئلہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے قول پر ہی فتوی دیتے ہیں۔ اصل بہشتی زیور کے مذکورہ صفحے کے حاشیہ پر لکھا ہے لیکن آج کل شدت ضرورت کی وجہ سے علماء نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب پر فتوی دے دیا ہے ،ان کے نزدیک اتنی مدت شرط نہیں اگر کسی کو ضرورت ہو تو علماء سے مفصل طور پر معلوم کر کے اس پر عمل کر سکتا ہے۔نیز ایک رسالہ "الحیلۃ الناجزۃ للحیلۃ العاجزۃ میں اس مسئلہ اور اس کے "دوسرے ضروری مسائل کو۔ جن میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب پر فتوی دینے کی گنجائش ہے۔تفصیل سے لکھا گیا اور علماء تھانہ بھون دیو بند اور سہارنپور کے اس منفقہ دستخط ہیں۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب وہی ہے جو اوپر میں نے خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور دیگر آئمہ مجتہدین تابعین عظام  رحمۃ اللہ علیہ  کا نقل کیا ہے۔

مولوی اشرف علی تھانوی کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ حنفی علماء نے اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے موقف کو ترک کر دیا ہے۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے موقف کو اختیار کیا ہے۔ اس بات پر ان کے دیوبند ، سہارنپور اورتھانہ بھون کے جید علماء کے دستخط ثبت ہیں ان علماء کی تفصیل "الحیلۃ الناجزۃ"جو کہ جدید طرز پر "احکام طلاق و نظام شرعی عدالت "کے نام سے الفیصل ناشران و تاجران کتب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور سے طبع ہوئی کے صفحہ 22تا 25 میں موجود ہے۔

مذکورہ بالا آثار صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور آئمہ دین محدثین اور حنفی علماء کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا شوہر لا پتہ ہو جائے تو اس کے یقینی طور پر لاپتہ ہو جانے کے بعد یا جب معاملہ عدالت کی طرف لایا جائے حاکم وقت تک پہنچانے کے بعد عورت چار سال تک انتظار کرے پھر چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر اگر نیا نکاح کرانا چاہے تو کرا سکتی ہے اور یہی راجع ترین موقف ہے جس کی پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تصدیق ہوتی ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الطلاق۔صفحہ نمبر 439

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ