سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) رضاعی رشتے

  • 20863
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 1790

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت نے اپنی بچی کے علاوہ دوسری عورت کے بچے کو کئی باردودھ پلایا۔بچے نے خوب سیر ہو کر ہر بار دودھ پیا۔ظاہر ہے اس بچہ اور ددوھ شریک بچی کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا۔دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ بچی کے بہن بھائی اور بچے کے دیگر بہن بھائی آپس میں نکاح کر سکتے ہیں؟قرآن و سنت کی روسے واضح کریں۔ (ملک محمد اسحاق ،قائدآبادمیانوالی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں محرمات کی تفصیل ذکر کی ہے جن میں ارشاد فرمایاہے کہ:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ...﴿٢٣﴾... سورة النساء

"تمھاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمھاری دودھ شریک بہنیں تم پر حرام کر دی گئی ہیں۔"

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے جیسا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

"الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة". (بخاری مع فتح الباری 9/140موطا 2/607،601،مسلم (1444)نسائی6/99دارمی 2/78۔79احمد 6/178،بیہقی 7/159،ابو یعلیٰ (4374) عبد لرزاق ( 13954) ابو داؤد (2055) ترمذی (1147) سنن سعید بن منصور (953) ابن حبان (4209)

"رضاعت وہ رشتے حرام کرتی ہے جو رشتے ولادت حرام کرتی ہے۔"

اس طرح ایک حدیث میں ہےکہ :

"يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ "

"جو چیز نسب سے حرام ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہے۔"

یعنی جس طرح آدمی کے لیے نسباً ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی، خالہ، بھتیجی ، بھانجی، حرام ہیں اسی طرح رضاعی ماں بہن وغیرہ بھی حرام ہیں۔رضاعی ماں اور بہن تو بنص قرآن حرام اور باقی رضاعی رشتے بنص حدیث صحیح حرام ہیں۔

اور رضاعت صرف اس آدمی کے لیے ہے جس نے دودھ پیا ہے۔ اس کے بھائی بہنوں کے لیے نہیں۔کیونکہ رضاعت متعدی نہیں ہوتی۔ حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  فتح الباری 8/141میں رقم طراز ہیں کہ :

"ولا يتعدى التحريم إلى أحد من قرابة الرضيع، فليست أخته من الرضاعة أختاً لأخيه، (ولا بنت أخ لأخيه)[14]، ولا بنتاً لأبيه؛ إذا لا رضاع بينهم. والحكمة في ذلك أن سبب التحريم ما ينفصل من أجزاء المرأة وزوجها وهو اللبن، فإذا اغتذى به الرضيع صار جزءاً من أجزائهما، فانتشر التحريم بينهم بخلاف قرابات الرضيع؛ لأنه ليس بينهم وبين المرضعة ولا زوجها نسب، ولا سبب، والله أعلم."

"دودھ پینے والے بچے کے قریبی رشتہ داروں کی طرف حرمت متعدی نہیں ہوتی۔اس دودھ پینے والے بچے کی رضاعی بہن اس کے بھائی کی رضاعی بہن نہیں ہے اور نہ اس کے باپ کی بیٹی ہے اس لیے کہ ان کے درمیان رضاعت نہیں ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ حرمت کا سبب وہ دودھ ہے جو عورت اور اس کے خاوند کے اجزاء سے جدا ہوتا ہےاور جب دودھ پینے والا بچہ اس دودھ کے ذریعے غذا حاصل کرتا ہے تو وہ ان دونوں کے اجزاء میں سے ایک جزو ہوتا ہے تو ان کے درمیان حرمت منتشر ہو جاتی ہے۔ دودھ پینے والےبچے کے قریبی رشتہ داروں میں یہ بات نہیں ہوتی اس لیے کہ ان کے درمیان اور دودھ پلانے والی اور اس کے خاوند کے درمیان نہ نسبی رشتہ ہے اور نہ حرمت کا سبب ہے۔"

امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنے بیٹے کی رضاعی ماں اور رضاعی بہن سے نکاح کر لے اسی طرح اس کا بھائی بھی اس کی رضاعی ماں اور رضاعی بہن سے نکاح کر سکتا ہے۔" (الاقناع 1/308)

امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ  المقدسی  رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:

"فأما المرتضع , فإن الحرمة تنتشر إليه وإلى أولاده وإن نزلوا , ولا تنتشر إلى من في درجته من إخوته وأخواته , ولا إلى أعلى منه , كأبيه وأمه وأعمامه وعماته وأخواله وخالاته وأجداده وجداته , فلا يحرم على المرضعة نكاح أبي الطفل المرتضع , ولا أخيه , ولا عمه , ولا خاله , ولا يحرم على زوجها نكاح أم الطفل المرتضع , ولا أخته , ولا عمته , ولا خالته , ولا بأس أن يتزوج أولاد المرضعة , وأولاد زوجها إخوة الطفل المرتضع وأخواته ."

(المغنیٰ 11/318،319،طبع قاہرہ)

"رضاعت کی بنا پر حرمت دودھ پینے والے لڑکے اور اس کی اولاد کی طرف منتشر ہوتی ہے اور اگرچہ نیچے تک ہوں (یعنی اس کے پوتے پڑپوتے وغیرہ ) یہ حرمت اسکے بھائیوں اور بہنوں کی طرف اور نہ اس سے اوپر رشتوں کی طرف منتشر ہوتی ہے جیسے دودھ والے کاباپ، ماں ، چچا، پھوپھیاں ، ماموں ، خالائیں ، دادے ، نانے دادیاں ،نانیاں ، دودھ پلانے والی، دودھ پینے والے کے باپ ، بھائی چچا اور ماموں کے ساتھ نکاح حرام نہیں اور نہ ہی اس کے خاوند پر دودھ پینے والے کہ ماں ، بہن ، پھوپھی اور خالہ حرام ہیں اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ دودھ پلانے والی کی اولاد اور اس کے خاوند کی اولاد پینے والے کے بھائیوں اور بہنوں سے نکاح کریں۔"

یہی بات نواب صدیق الحسن خان قنوجی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب "الروضہ الندیہ"2/25پر شاہ ولی اللہ کی کتاب "المسوی"شرح موطا کے حوالے سے تحریر کی ہے لہٰذا وہ اولاد جن کا آپس میں رضاعت کا تعلق ہے ان کے دیگر بہن بھائیوں کا آپس میں ایک دوسرے کے گھر ازدواجی تعلق قائم ہو سکتا ہے، شرعاً کوئی مانع موجود نہیں۔(الدعوۃ مئی 1997ء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 415

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ