سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(550) بالوں کی پیوندکاری

  • 20813
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1543

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل جدید سرجری کے ذریعے نئے بال اُگائے جاتے ہیں جن کو قدرتی بالوں کا نام دیا جاتا ہے، کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے۔ ہم نے اس سلسلہ میں کچھ علماءسے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا شرعاً جائزنہیں ، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بالوں کی پیوند کاری کی دو اقسام ہیں: ایک تویہ ہے کہ اپنے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال ملانا اس کی شرعاً اجازت نہیں کیونکہ اس میں ملمع سازی اور دھوکہ دہی ہے، نیز اس میں اللہ کی تخلیق کو بدلنے کا شائبہ ہے ، جو ایک شیطانی حرکت ہے۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایسی عورتوں پر لعنت کی جو اپنے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال جوڑیں اور جڑوائیں۔[1]  

وِگ کا استعمال بھی اسی وعید کی زد میں آتا ہے جیساکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر سے اپنے محافظ کے ہاتھ سے بالوں کا ایک گچھا پکڑا اور کہا: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اس طرح کی چیزوں سے منع فرماتے تھے۔ بنی اسرائیل اس لئے ہلاک ہوئے کہ ان کی عورتوں نے ان کا استعمال شروع کر دیاتھا ۔[2]

دوسری پیوند کاری کی قسم یہ ہے کہ جدید طب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی آدمی کو اس کے اپنے ہی بال لگائے جاتے ہیں جو کانوں کے درمیان سے یا سر کی پچھلی جانب سے لئے جاتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق جڑوں سمیت پٹی نکال لی جاتی ہے پھر ان بالوں کو ایک ایک بال کیا جاتا ہے پھر ان کو پہلے سے بنائے ہوئے انتہائی باریک سوراخوں میں لگا دیا جاتا ہے۔ پھر ان سوراخوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ بال لگانے کے بعد تقریباً تین ہفتوں کی مدت میں وہ لگائے گئے بال گر جاتے ہیں پھر جب ان جڑوں کو سر سے خون کے ذریعے غذا ملنا شروع ہوتی ہے تو وہ تین سے چھ ماہ میں دوبارہ اُگ آتے ہیں جو عام بالوں کی طرح بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ ایک جدید طریقہ علاج ہے جس میں گنجے انسان کے اپنے بال جدید سرجری کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جس طرح جسم کے ایک حصے کا گوشت نکال کر دوسرے حصے کو بھرا جاتا ہے جو کسی حادثہ کی وجہ سے ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح بالوں کو بھی دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں اس گنجے انسان کا بھی ذکر ملتا ہے جس کے سر پر فرشتے نے ہاتھ پھیرا تھا تو اس کے خوبصورت بال معجزاتی طور پر اُگ آئے تھے۔[3]

فرشتے نے یہ کام اس کی خواہش کے پیش نظر کیا تھا، اگر ایساکرنا ناجائز ہوتا تو فرشتہ یہ کام نہ کرتا۔ کچھ اہل علم اس طریقہ علاج کو ناجائز کہتےہیں، ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں جسم کو گودنے اور گدوانے پر لعنت کی گئی ہے۔[4]  

اس حدیث کے پیش نظر ان حضرات نے نئے بال اُگانے سے منع کیا ہے ، لیکن حدیث سے اس طرح کی ممانعت کشید کرنا محل نظر ہے۔بہر حال احادیث کی رو سے دوسرے شخص یا عورت کے بال اپنے بالوں کے ساتھ ملانے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح مصنوعی یا اصلی بالوں سے تیار کردہ وِگ بھی اس وعید کی زد میں آتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے، اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ۔ البتہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے جدید تحقیق سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے اور گنجے سر میں نئے بال اُگانے میں کوئی حرج نہیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] ابو داود ، الرجل : ۴۱۶۸۔

[2] صحیح بخاری ، احادیث الانبیاء : ۳۴۶۸۔

[3] صحیح بخاری، احادیث الانبیاء : ۳۲۶۴۔

[4] صحیح بخاری، اللباسل : ۵۹۶۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:475

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ