سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(537) غفران ذنوب اور تکفیر سئیات میں فرق

  • 20800
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1532

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن مجید میں ہے: ’’ اے ہمارے رب! تو ہمارے گناہ بخش دے ﴿فاغفرلنا ذنوبنا﴾ اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے ، ﴿وکفر عنا سیاتنا اس آیت کریمہ میں غفران ذنوب اور تکفیر سیئات سے کیا مراد ہے، بظاہر دونوں کا ایک ہی مفہوم ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مفسرین کرام نے غفران ذنوب اور تکفیر سیئات کے متعلق کئی ایک توجیہات بیان کی ہیں، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭ کچھ حضرات نے ان دونوں کو مترادف وہم معنی قرار دیا ہے ، ان کے نزدیک غفران ذنوب اور تکفیر سیئات سے مراد ایک ہی چیز ہے کہ اے اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے لیکن یہ معنی قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے۔

٭ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ غفران ذنوب سے مراد کبیرہ گناہوں کی معافی اور تکفیر سیئات کا معنی صغیرہ گناہوں کا دُھل جانا ہے یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ بڑے اور چھوٹے سب گناہ معاف کر دے۔

٭ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ ذنوب سے مراد ترک طاعات یعنی شرعی طور پر جو کرنے کے کام ہیں انہیں چھوڑ دینا مثلاً ترک نماز وغیرہ اور سیئات سے مراد ارتکاب معاصی یعنی شرعی طور پر جو باز رہنے کے کام ہیں ان کا ارتکاب کرنا مثلاً شراب پینا اور جوا کھیلنا وغیرہ۔ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! ہم سے جو کام کرنے کے رہ گئے ہیں، ان کی معافی اور جو باز رہنے والے کاموں کا ہم نے ارتکاب کیا ہے ان سے درگزر فرما۔

دراصل اس دعا میں چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان کی وضاحت کے بعد ہم اپنا رجحان بیان کریں گے، وہ چار الفاظ اور ان کی تشریح حسب ذیل ہے:

٭ غفر: لغوی طور پر اس کا معنی یہ ہے کہ کسی چیز پر کوئی ایسی چیز پہنا دینا جو اسے میل کچیل یا دوسری مضرت سے محفوظ رکھے۔ اللہ کی طرف سے غفران کا یہ معنی ہے کہ وہ گناہوں کی سزا سے انسان کو چھپا لے، یہ اس کی طرف سے عذاب کے ساقط ہونے کی مقتضی ہے اور یہی بات ثواب کو واجب کر دیتی ہے۔

٭ ذنب:  ہر اس فعل کو کہتےہیں جس کا انجام برا ہو، اس کا اطلاق اس قدر عام ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی لغزش سے لے کر بڑے سے بڑے گناہ پر اس لفظ کو بولا جاتا ہے۔

٭ تکفیر :  لغوی طور پر اس لفظ کا معنی چھپانا ہے ، اس سے ’’ کفارۃ ‘‘ کا لفظ بنا ہے ۔ اس سے مراد وہ عمل جس کی ادائیگی پر گناہ سے پردہ پوشی ہو جائے ، یہ لفظ سیئات کو حسنات کے ذریعے ختم اور معاف کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

٭ سیئات :  بد صورت یا ناگوار قول و فعل کو کہتے ہیں جو ظاہری ، بد صورتی اور معنوی خرابی دونوں کے لئے آتا ہے یعنی سیئات بُرے کام اور اس کی ضد حسنات ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ حسنات ، سیئات کو ختم کر دیتی ہیں۔[1]  

ہمارے رجحان کے مطابق اللہ کی عبادت میں کوتاہی کا نام ذنوب ہے یعنی ایسے معاملات سے پہلو تہی کرنا جو اللہ اور بندے کے درمیان ہیں، اسے ذنوب سے تعبیر کیا گیا ہے اور حقوق العباد میں کوتاہی کا نام سیئات ہے یعنی بندوں کے جو باہمی حقوق ہیں ان کی ادائیگی سے رو گردانی کرنا سیئات کہلاتا ہے۔ اس دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اےاللہ ! جو تیرے حقوق کے متعلق ہم سے کوتاہی ہوئی ہے اس پر پردہ ڈال دے اور ہمیں سزا سے دو چار نہ کر اور حقوق العباد کے متعلق کوتاہی کو بالکل ختم کر دے اور ہمیں اس کے بارے میں باز پرس نہ کر۔ اس مفہوم کو علامہ محمد رشید رضا نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ [2]


[1] ھود: ۱۱۴۔

[2] المنار ص ۳۰۳ ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:464

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ