سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(524) مردہ مچھر اور مکھی کا حکم

  • 20787
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1999

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر دودھ یا پانی میں مکھی یا مچھر گر کر مر جائے تو اس کا کیا حکم ہے ، جبکہ قرآن کریم نے مردار کو حرام قرار دیا ہے ، اس کی قرآن و حدیث کی رو سے وضاحت کر دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بلا شبہ قرآن کریم کی نص کے مطابق مردار حرام ہے اور مردار نجس ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار کے چمڑے کو پاک کرنے کا طریقہ بتایا ہے کہ اسے رنگا جائے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے دباغت نہ دی جائے تو وہ نجس ہے۔ اس پر علماء امت کا اجماع ہے لیکن مردار نجس ہونے سے وہ مردار مستثنیٰ ہے جس میں بہنے والا خون نہ ہو جیسے مکھی ، کیڑے مکوڑے ، چیونٹی اور مچھر وغیرہ ۔ ا ن میں اتنا خون نہیں ہوتا جو زمین پر بہنے لگے۔

اس طرح کے حشرات اور کیڑے مکوڑے مر جائیں تو وہ نجس نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکھی کے متعلق فرمایا ہے : ’’ جب مکھی تم میں سے کسی کے مشروب میں گر جائے تو اسے ڈبو کر نکالا جائے کیونکہ اس کے ایک پَر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہوتی ہے۔ ‘‘ [1]

بعض روایات میں کھانے میں گرنے کے الفاظ بھی ہیں۔ [2]

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مکھی جب سالن ، پانی، دودھ یا چائے وغیرہ میں گر جائے تو کھانے پینے کی چیز کو ضائع کر دینا جائز نہیں بلکہ اسے استعمال میں لانا جائز ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا مردار نجس نہیں۔ مچھر ، شہد کی مکھی ، چیونٹی اور دیگر حشرات کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے ۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں:

’’ یہ حدیث اس امر پر بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ قلیل پانی ایسی چیز کے گرنے سے پلید نہیں ہوتا جس میں اتنا خون نہیں جو بہنے والا ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیز کو ڈبونے کا حکم نہیں دیتے جس کے مرنے سے پانی پلید ہو جاتا ہو۔‘‘ [3]

لہٰذا مچھر ، مکھی وغیرہ گرنے اور مرنے سے کوئی چیز پلید نہیں ہوتی ۔ ( واللہ اعلم )


[1] صحیح بخاری ، بدء الخلق : ۳۳۲۰۔

[2] ابن ماجه ، الطب : ۳۵۰۴۔

[3] فتح الباری ص ۳۰۹ج ۱۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:456

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ