سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(612) جانوروں کی پیوندکاری کرنا

  • 20261
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2758

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل جانوروں کی پیوندکاری کی جاتی ہے، جس طرح گھوڑے کی ایک نسل کی دوسری نسل کے اختلاط سے خچر تخلیق کی گئی ہے، اس طرح ایک بھیانک اور ناپاک درندے خنزیر کے اختلاط سے گائے کی ایک نسل پیدا کی گئی ہے، چونکہ مذکورہ گائے دودھ بہت دیتی ہے، اس لیے عوام الناس میں کافی مقبول ہو رہی ہے، کیا یہ حقیقت پر مبنی ہے اگر صحیح ہے تو کیا اس طرح کے جانور کا دودھ اور گوشت حلال ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جوا ب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرچہ اس سوال کا تعلق جدید سائنس سے ہے، کتاب و سنت سے نہیں، ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ جو حضرات کتاب و سنت کے حاملین ہیں وہ جدید سائنس سے بے بہرہ اور ماہرین سائنس کتاب و سنت سے عاری ہوتے ہیں، راقم الحروف بھی قرآن و حدیث کا طالب علم ہے۔ جدید سائنس کے متعلق معمولی سی معلومات رکھتا ہے تاہم اس سوال کے حوالہ سے میں نے محکمہ لائیوسٹاک کے عملہ سے رابطہ کیا۔ ماہرین سائنس سے بھی معلومات حاصل کی ہیں، ان معلومات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ﴾[1]

’’اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کر دئیے ہیں شاید تم سبق حاصل کرو۔‘‘

 اس آیت کے کئی ایک مفہوم بیان کیے جاتے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق درج ذیل مفہوم قرین قیاس ہے۔ زوجین سے مراد نر اور مادہ ہے، ہر نر مادہ کا زوج ہے اور ہر مادہ نر کا زوج ہے، جانداروں میں ایک دوسرے کا زوج تو سب کے مشاہدہ میں آچکا ہے، نباتات میں بھی یہ سلسلہ قائم ہے، بار برداری ہوائیں نر درختوں کا تخم مادہ درختوں پر ڈال دیتی ہیں تو انہیں پھل لگتا ہے، جس علاقے میں کھجوریں زیادہ ہوتی ہیں وہاں کے باشندے خود نر کھجوروں کا تخم مادہ کھجوروں پر ڈال دیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کے موقع پر اہل مدینہ کھجوروں پر یہی عمل کرتے تھے، جس سے آپ نے منع فرمایا تو اگلے سال پھل بہت کم ہوا۔ اس کے بعد آپ نے اس کی اجازت دے دی، شرعی اصطلاح میں اس عمل کو ’’تأبیر نخل‘‘ کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی مقام پر تن تنہا درخت پھل نہیں لاتا۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ سلسلہ جمادات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بجلی کا نیوٹل اور فیس ہونا، ایک حقیر ذرہ میں الیکٹرون اور پروٹون کا مثبت اور منفی ہونا انسان کے علم میں آچکا ہے۔ جمادات تو کیا کائنات کی ہر چیز ذرات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے، اس نر و مادہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ چلایا کہ ان دونوں نر و مادہ کے ملاپ سے ایک تیسری چیز وجود میں آتی ہے، جس میں اصل نر و مادہ کے خواص موجود ہوتے ہیں۔ اسے سائنسی اصطلاح میں اس طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر جاندار کی نسل باقی رکھنے اور اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کا ایک نظام بنا رکھا ہے، اس نے ہر جاندار میں جرثومے پیدا کیے ہیں جنہیں کروموسوم کہا جاتا ہے پھر ہر جنس میں کروموسوم کی تعداد، شکل و صورت اور ان کی ترتیب مختلف ہے مثلاً انسان کے اندر چھیالیس کروموسوم ہیں جن کے تئیس (۲۳)جوڑے بنتے ہیں، جنسی ملاپ کی صورت میں بائیس جوڑے جسم کی نشوونما کے لیے اور تیئسواں جوڑا افزائش نسل کے لیے ہوتا ہے، قرآن کریم نے نطفہ امشاج سے انسان کو آگے چلایا ہے، اگر ان کی تعداد، شکل و صورت اور ترتیب میں فرق ہو جائے تو کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی، اگر پیدا ہو جائے تو وہ افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتی، ہمارے ہاں اس کی مثال گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے خچر پیدا کرنا ہے، اگرچہ شریعت نے اس سے منع کیا ہے تاہم فوجی حضرات اپنی ضرورت کے لیے مصنوعی بار آوری کے ذریعے خچر کو پیدا کرتے ہیںیہ خچر خود آگے افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتا خواہ نر ہو یا مادہ، اس کی پیدائش صرف اس کی ذات تک محدود رہتی ہے۔ اس کے آگے نسل نہیں چلتی ہے، اس وضاحت کے بعد ہم صورت مسؤلہ کا جائز لیتے ہیں کہ سائنسی اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ خنزیر اور گائے کے ملاپ سے کوئی نسل پیدا کی جائے جس میں گائے کی خصوصیات ہوں اور دودھ دینے کے اعتبار سے وہ خنزیر کی خصوصیات کی حامل ہو۔ موجودہ اسٹریلین گائے مستقل ایک جنس ہے جس کی آگے نسل چلتی ہے، ان میں نر و مادہ دونوں جوڑے رہتے ہیں، جب پاکستان میں اس نسل کی پہلی کھیپ آئی تو بلوچستان کے ٹھنڈے علاقہ میں رکھا گیا۔ اس کھیپ میں نر اور مادہ دونوں قسم کے جانور تھے، ان کے ملاپ سے آگے نسل بھی چلائی گئی، میں نے اس سلسلہ میں اس وقت کے محکمہ لائیوسٹاک کے ڈائریکٹر سے ملاقات کی، اگر یہ گائے خنزیر کے ملاپ سے پیدا ہوئی تو اس کی نسل آگے نہ چلتی جیسے خچر کی نسل آگے نہیں چلتی ہے، دودھ زیادہ دینے کی اور کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، اس سلسلہ میں غذائیں اور چارہ بھی کافی معاون ہوتا ہے میں نے رینالہ فارم میں ایسی گائیں خودد یکھیں ہیں جن کے پیٹ پر ایک پیچدار پائپ لگا ہے ان کےمعدے تک پہنچتا ہے۔ انہیں چارہ کھلانے کے بعد پائپ کھول کر پتہ کیا جاتا کہ یہ چارہ کتنی مدت میں ہضم ہوتا ہے پھر زود ہضم چارے کا انتخاب کر کے دودھ زیادہ حاصل کیا جاتا ہے، چارے کے علاوہ دیگر غذائی مواد بھی کھلایا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ دودھ دیں، بہرحال اس مفروضے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ نسل گائے اور خنزیر کے ملاپ سے پیدا کی گئی ہے واقعاتی اعتبار سے ایسا ہونا اس لیے بھی ناممکن ہے کہ گائے کہ کروموسوم ساٹھ اور خنزیر کے صرف اڑتیس ہوتے ہیں، ان دونوں کی تعداد میںبائیس کروموسوم کا فرق ہے پھر ان کی شکل و صورت میں واضح فرق ہے کہ مادہ خنزیر کے سولہ تھن ہوتے ہیں جبکہ گائے کے صرف چار تھن ہیں۔ خصوصیات کے اعتبار سے بھی فرق ہے کہ خنزیر انتہائی بے حیا جانور ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کیا ہے پھر جن ممالک میں اس کا گوشت کھایا جاتا ہے وہ انتہائی بے حیا اور بے شرم ہیں، اگر ایسا ممکن ہوتاتو اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم نہ دیتا کہ ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لو، صرف ایک ایک جوڑا ہی کافی تھا پھر ان کے باہمی ملاپ سے آگے نسل چلائی جا سکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا:

﴿قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ﴾ [2]

 ’’ہم نے نوح سے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا نر مادہ رکھ لو۔‘‘

 بہرحال خنزیر ایک الگ جنس ہے اور گائے ایک دوسری جنس ہے، ان کا باہمی ملاپ ناممکن تو نہیں البتہ اس سےکسی جنس کا پیدا ہونا ناممکن ہے، یورپ میں فرنگی تہذیب سے وابستہ خواتین کتوں سے بدکاری کراتی ہیں لیکن کبھی اس کے نتیجہ میں کوئی نسل پیداہوئی ہے؟ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے اس حوالہ سے اپنے فقہاء کرام سے شکوہ ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں فرضی صورتیں بیان کر کے دوسروں کو پریشان کیا ہے، صرف ایک مفروضہ ملاحظہ فرمائیں۔

 اگر بکری اور کتے کے ملاپ سے ایسا بچہ پیدا ہو جس کا سر کتے جیسا اور باقی دھڑ بکرے کا ہو تو اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق فقہاء احناف نے حسب ذیل وضاحت کی ہے۔ اس کے سامنے گوشت اور چارہ ڈالا جائے، اگروہ گوشت کھائے تو اس کا گوشت حرام ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ کتا ہے اگر وہ چارہ کھائے تو ذبح کرنے کے بعد اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے اور باقی گوشت استعمال کر لیا جائے کیونکہ وہ بنیادی طور پر بکرا ہے اور اگر وہ چارہ اور گوشت دونوں کھائے تو پھر اسے مارا جائے، اگر بھونکتا ہے تو اس کا گوشت استعمال کے قابل نہیں کیونکہ وہ کتا ہے اور اگر وہ بکری کی طرح ممیاتا ہے تو ذبح کر کے اس کا سر پھینک دیاجائے اور باقی حصہ کھا لیا جائے کیونکہ وہ بنیادی طور پر بکرا ہے۔ اگر مارنے سے دونوں قسم کی آوازیں برآمد ہوں تو اس کا پیٹ چاک کیا جائے اگر اس سے اوجھڑی نکلے تو اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے اور باقی حصہ قابل استعمال ہے اور اوجھڑی کی بجائے صرف انتڑیاں ہی برآمد ہوں تو وہ کتا ہے اور اسے استعمال نہ کیا جائے۔ [3]

 ہم اس فتویٰ پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، صرف اتنا کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے ؟ کیا ایسا ہونا عادتاً ممکن ہے؟ کیا اس سائنسی دور میں اس قسم کے مفروضوں سے اسلام اور اہل اسلام کے متعلق لوگ کیا کہیں گے؟ دراصل اس قسم کے بیسوں مسائل ایسے ہیں جنہوں نے اسلامی شریعت کو اغیار کی نظر میں بدنام کر ڈالا ہے۔ سوال میں ذکر کردہ صورت بھی اس قسم کی معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی نے مذکورہ فتویٰ پڑھ کر گائے اور خنزیر کے ملاپ کا افسانہ تراش لیا ہو۔ ہمارے ہاں بکریوں کی ایک قسم ہرن سے ملتی جلتی ہے، اس کےسینگ، سر، منہ اور آنکھیں بالکل ہرن جیسی ہوتی ہیں، اس کے متعلق بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنس بکری ہرن کے ملاپ کا نتیجہ ہے، اس طرح برائلر مرغی کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی پیدائش باپ کے بغیر ہوتی ہے لہٰذا اس کا گوشت جائز نہیں ہے، یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے، جہاں مرغی فارم ہیں وہاں مرغ بھی رکھے ہوتے ہیں، وہ مرغیاں جو انڈے دیتی ہیں ان کے بچے نکالے جاتے ہیں لیکن وہ بچے مشینی ہوتے ہیں اگرچہ وہ اکیس دن کے بعد ہی نکلتے ہیں تاہم وہ مرغیوں کے محتاج نہیں ہوتے، ان بچوں کو ایک خاص طریقہ سے نر اور مادہ کی چھانٹی کی جاتی ہے جو مرغ ہوتے ہیں انہیں برائلر کے طور پر مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اور مرغیوں کو انڈوں کے لیے رکھا جاتا ہے، ان کو کیمیاوی غذا کھلا کر انڈے حاصل کیے جاتے ہیں، ان انڈوں سے بچے نہیں نکلتے کیونکہ یہ انڈے صرف غذا سے حاصل کیے جاتے ہیں، ان میں مرغ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، جو مرغی انڈے دے دے کر تھک جائے پھر انڈے نہ دے اور غذا زیادہ کھائے اسے لیر کے نام سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے، اس کا گوشت برائلر کے مقابلہ میں سستا ہے، بہرحال برائلر گوشت کے استعمال میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، اگر کسی کا دل نہ کرے تو یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ بہرحال صورت مسؤلہ کے متعلق ہمارا مؤقف یہ ہے کہ آسٹریلین گائے جو دودھ بہت دیتی ہے، اس میں خنزیر کا کوئی حصہ نہیں ہے، اور نہ ہی خنزیر کے ملاپ سے یہ پیدا ہوئی ہے اور ایسا ہونا ممکن نہیں ہے جب کہ ہم نے واضح کہا ہے، جنس کو آگے چلانے کے لیے کروموسوم کی تعداد، شکل و صورت اور ان کی ترتیب میں یکسانیت ہونا ضروری ہے، گائے اور خنزیر میں ایسا ہونا ناممکن ہے، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ روایات بھی ہیں جو آپ نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمائیں تھی، جنہیں ہم نے شرح بخاری میں تفصیل سے بیان کیا ہے جو آج کل آخری مراحل میں ہے، قارئین کرام سے اپیل ہے کہ وہ اس کی تکمیل کے لیے ضرور دعا کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


[1]۵۱/الذریات: ۴۹۔

[2]  ۱۱/ھود:۴۰۔

[3] فتاویٰ قاضی خاں برحاشیہ عالمگیری،ص: ۵۳۷،ج۳۔

 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:507

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ