سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(213) پیشہ ورگداگروں کو صدقہ دینا

  • 19862
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 686

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بسوں ، ٹرینوں پر سفرکے دوران دیکھا جاتا ہے کہ جوان لڑکیاں مانگتی ہیں، کچھ لوگ انہیں ضرورت مند خیال کر کے ان کا تعاون کر دیتے ہیں، کیا ایسی پیشہ ور لڑکیوں کا تعاون کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بھیک مانگنا اور اسے پیشہ بنا لینا انتہائی ناپسندیدہ کردار ہے، اس سلسلہ میں متعدد احادیث مروی ہیں، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ گداگری اوربھیک مانگنے کو پیشہ بنا لیتے ہیں وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئیں گے کہ ان کے چہروں پر گوشت نہیں ہو گا۔‘‘ [1]

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کی غرض سے لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلاتا ہے وہ اپنے لیے انگاروں کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں مانگتا، اب اس کی مرضی ہے کہ چاہے انہیں کم کرے یا زیادہ۔‘‘ [2]

 حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مانگنا ایک زخم ہے جس سے انسان اپنے چہرے کو زخمی کرتا ہے البتہ ایسا شخص جو کسی مجبوری کی وجہ سے سوال کرے یا سربراہ مملکت سے مانگے تو اس کے لیے چنداں حرج نہیں ہے۔ [3]

 حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر لکڑیوں کاگٹھا جنگل سے اپنی پشت پر اٹھا کر لائے پھر اسے بازار میں فروخت کر دے، اس طرح اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مانگنے سے روک دے تو یہ اس کے لیے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، وہ اسے دیں یا نہ دیں۔ [4]

 ان احادیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گداگری کس قدر گھناؤنا جرم ہے، پھر جوان لڑکیاں اس پیشہ کو جب اختیار کرتی ہیں تو پس پردہ بہت سے جرائم چھپے ہوتے ہیں، اس کی آڑ میں قحبہ گری کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے، اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ بسوں اور ٹرینوں میں مانگنے والی بے پردہ لڑکیوں کے ساتھ ہرگز تعاون نہ کیا جائے، ان کے ساتھ تعاون کرنا گویا ظلم وزیادتی کے کاموں میں تعاون کرنا ہے جس سے قرآن نے ہمیں منع کیا ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، الزکوٰة: ۱۴۷۴۔

[2] صحیح مسلم، الزکوٰة: ۱۰۴۱۔

[3] 1         ابو داود، الزکوٰة: ۱۶۳۹۔

[4] صحیح بخاری، الزکوٰة: ۱۴۷۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:198

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ