سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1026) معاملہ کی تحقیق کے لیے عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنا

  • 18633
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 591

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی معاملہ کی تحقیق و تفتیش کے لیے کسی مرد کا کسی عورت کے ساتھ تخلیہ میں ہونا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کوئی مرد ہرگز کسی عورت کے ساتھ تخلیہ اور علیحدگی میں نہ ہو، خواہ  تحقیق و تفتیش ہی ہو۔ اور عورت کو لازما دوسری عورتوں کے ساتھ ہی قید میں رکھا جائے۔ ایسے ہی نو عمروں کا معاملہ ہے۔ اور عہد نبوت اور عہد صحابہ میں اس انداز میں عورتوں کو لمبی قید میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ اگر کہیں ضرورت پیش آ بھی جائے تو ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ رکھی جائے جو انتہائی قابل اعتماد اور مضبوط ہوں، ان پر مردوں کا کوئی تسلط نہ ہو، اور مقید عورت کو کسی ضروری کام ہی سے باہر نکالا جائے، اور وہ اپنے محرم کی معیت میں لائی جائے، حتیٰ کہ اپنی جگہ پر پہنا دی جائے، کوئی مرد اس کے ساتھ تخلیہ میں نہ ہو۔ اور اگر بالفرض کوئی تحقیق راز دارانہ بھی ہو تو کوئی نہ کوئی محرم مرد اس کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اگر محرم نہ ہو تو کوئی امانت دار مضبوط عورت اس کے ساتھ ضرور ہو، جو کسی مرد کو اس کے ساتھ علیحدہ نہ ہونے دے۔ اگر دو عورتیں ہوں جو اس کے ساتھ ہوں تو یہ زیادہ محتاط ہے۔ بہرحال جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ اس کے باغیرت محرم کا ہونا بہت ہی لازمی ہے۔

اس مناسبت سے یہ کہنا ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں کی جیلوں کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور ان پر جو لوگ متعین ہیں ان پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ اور قیدی عورتوں اور بچوں کے معاملات کا بھرپور جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ اور یہ سب اللہ کی حرمتوں کی غیرت کی بنیاد پر ہو اور مسلمانوں کی عزتیں محفوظ رہیں۔ ان امور میں محض حسن ظن کافی نہیں ہے بلکہ یہ ماملہ انتہائی حساس اور خطرناک ہے جس میں تنبیہ، احتیاط اور دانشمندی کا اظہار کرنا لازمی ہے۔ 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 721

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ