سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) وضو کرنے کے بعد مہندی لگا کر نماز پڑھنا

  • 17728
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1830

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون نے وضو کیا اور پھر اپنے سر پر مہندی لگا لی اور نماز پڑھنے لگی، تو کیا اس طرح اس کی نماز درست ہو گی؟ اور اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا اسے مہندی کے اوپر سے مسح کرنا جائز ہو گا یا وہ پہلے اپنے بال دھوئے اور پھر وضو کرے۔۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) بالوں پر مہندی لگا لینا کسی طرح وضو یا طہارت کے منافی نہیں ہے۔ اگر اس نے مہندی لگا لی ہو اور اسی حالت میں وضو کرے یا کوئی اور لیپ جس کی خواتین کو ضرورت رہتی ہے، ان کے اوپر سے مسح کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، وضو بالکل صحیح ہو گا۔ البتہ طہارت کبریٰ (یعنی واجبی غسل) کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سر پر تین لپ پانی ڈال کر اپنے بالوں کو ملے اور ہلائے، صرف مسح کرنا کافی نہ ہو گا۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بال خوب گوندھ کر باندھتی ہوں، تو کیا میں غسل جنابت اور غسل حیض کے لیے انہیں کھولا کروں؟ فرمایا: ’’نہیں، تجھے اتنا ہی کافی ہے کہ تو اس پر تین لپ پانی ڈال لیا کر، پھر باقی جسم پر پانی ڈال لیا کر، اس طرح تو پاک ہو جائے گی۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ، حدیث: 330۔ سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب فی الوضوء بعد الغسل، حدیث: 251 و سنن الترمذی، ابواب الطھارۃ، باب ھل تنقض المراۃ شعرھا عند الغسل، حدیث: 105۔) اور گر عورت غسل حیض کے لیے اپنے بال کھول کر دھوئے تو یہ افضل ہے، کیونکہ اس بارے میں اور بھی احادیث آئی ہیں۔ (عبدالعزیز بن باز)

جواب: (2) جب عورت نے اپنے سر پر مہندی کا لیپ ہو تو اسے اس پر مسح کرنا درست ہے، اس کی قطعا ضرورت نہیں کہ پہلے وہ اپنے بال کھولے اور پھر مہندی کے نیچے سے مسح کرے۔ کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام میں نے اپنے بالوں پر لبدہ لگایا تھا۔ تو جب سر پر کوئی لیپ وغیرہ کیا ہو تو اس کا حکم بھی سر ہی کا سا ہے۔ اور یہ دلیل ہے کہ سر کی طہارت میں کسی قدر سہولت ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 164

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ