سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) سبیلین کے علاوہ جسم سے کچھ نکلنا

  • 17721
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1353

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا سبیلین (قبل و دبر) کے علاوہ اگر جسم انسانی سے کچھ نکلے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سبیلین (قبل و دبر) کے علاوہ جسم انسانی سے اگر کچھ خارج ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے سوائے اس کے کہ پیشاب ہو یا پاخانہ۔ اس میں اصل یہ ہے کہ کوئی چیز وضو کی ناقض نہیں ہے (سوائے اس کے جو دلیل شرعی سے ثابت ہو) تو جو آدمی اصل کے خلاف کا دعویٰ کرتا ہے اسے چاہئے کہ دلیل بھی پیش کرے۔ اور انسان کا پاک ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہے۔ اور جو چیز دلیل شرعی سے ثابت ہو، اسے دلیل شرعی ہی سے رد کیا جا سکتا ہے۔ اور ہم کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ثابت شدہ امور کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں، کیونکہ ہم اللہ عزوجل کی شریعت کے پابند ہیں اور اس کے تحت عبادت کرتے ہیں، اپنی من مرضی سے کوئی عبادت نہیں کر سکتے۔ ہمیں کسی طرح روا نہیں کہ اللہ کے بندوں کو کسی ایسی طہارت کا پابند بنائیں جو لازم نہیں ہے، اور جو ان کی اصل طہارت واجبہ ہے اسے زائل کر دیں۔

اگر کوئی یہ کہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی اور پھر وضو کیا۔‘‘[1] تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اس حدیث کو بہت سے اہل علم نے ضعیف کہا ہے، اور یہ بھی ہے کہ یہ محض ایک فعل ہے۔ اور ایک فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ امر (حکم دئیے جانے) سے خالی ہے نیز یہ دوسری حدیث کے برخلاف بھی ہے، اگرچہ وہ بھی ضعیف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی اور وضو نہیں کیا۔( سنن الدارقطنی: 157/1، حدیث: 26۔)  تو یہ دلیل ہے کہ قے آ جانے پر وضو کرنا واجب نہیں ہے۔

الغرض یہی قول راجح ہے کہ بقیہ بدن سے نکلنے والی کسی شے سے خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ، وضو نہیں ٹوٹتا ہے، قے ہو یا لعاب، خون ہو یا زخموں کی پیپ وغیرہ، الا یہ کہ وہ پیشاب یا پاخانہ ہو مثلا عمل جراحی سے کوئی ایسی جگہ کھول دی گئی ہو جہاں سے پیشاب پاخانہ خارج ہوتا ہو تو ان کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔


[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب "قے کے بعد وضو کرنا" تو معلوم نہ ہو سکا البتہ قے کی وجہ سے روزہ افطار ہو جانا (ٹوٹ جانا) تو بہرحال احادیث میں وارد ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 158

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ