سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) گندی نالیوں کا پانی کیمیائی طریقے سے صاف کرنا

  • 17719
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 955

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بدرَو (گندی نجس نالیوں) کا پانی بعض تحلیلات اور کیمیائی اعمال کے ذریعے سے صاف کیا جاتا ہے اور کھیتوں کو بھی دیا جاتا ہے۔ اس پانی کا کیا حکم ہے؟ کیا اس سے وضو ہو سکتا ہے، کپڑے کو لگے تو کیا کپڑا نجس ہو جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نجس پانی جب کیمیائی تحلیل کے ذریعے سے اپنی پہلی حقیقت سے بدل گیا ہے تو اب وہ دوسری حقیقت کا حکم رکھتا ہے۔ اور اس وقت تک پلید نہیں ہو گا جب تک کہ نجاست پڑنے سے اس کے تین اوصاف میں سے کسی ایک میں تبدیلی نہ آ جائے یعنی ذائقہ، رنگ اور بو۔

پاک پانی کا اپنا کوئی رنگ، کوئی ذائقہ اور کوئی بو نہیں ہے۔ اور حدیث شریف میں ایک اصول بیان کر دیا گیا ہے کہ (الماء طهور لا ينجسه شىء) "پانی پاک ہے اور اسے کوئی شے نجس نہیں کرتی ہے‘‘[1] اور یہی قاعدہ حدیث قلتین[2] پر بھی جاری ہوتا ہے۔ اگر پانی قلتین (دو بڑے بڑے مشکوں کی مقدار) سے کم ہو اور اس میں کوئی نجاست پڑ جائے اور پانی اپنی حقیقت بدل جائے (ذائقہ، رنگ یا بو بدل جائے) تو وہ پلید ہو گا اور ایسے ہی اگر دو قلعوں سے زیادہ ہو تو بھی۔ (محمد ناصر الدین البانی)


[1] سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب ما جاء فی بئر بضاعۃ، حدیث: 66۔ سنن الترمذی، کتاب الطھارۃ، باب ان الماء لا ینجسہ شئی، حدیث: 66۔ مسند احمد بن حنبل: 31/3 و مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ۔

[2] اس سے متعلق حدیث مبارکہ کے الفاظ اس طرح ہیں: " اذا كان الماء قلتين لم يحمل نجسا" ایک روایت میں " لم يحمل خبث" ہے، اور ایک روایت میں ’’اذا كان الماء قلتين فانه لا ينجس‘‘ کے الفاظ ہیں۔ سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب ما ینجس الماء، حدیث: 63،65۔ سنن الترمذی، کتاب الطھارۃ، باب الماء لا ینجسہ شئی، حدیث: 67 الام للشافعی: 4/1 ، کتاب الطھارۃ، باب الماء الراکد۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 156

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ