’’ وفوق کل ذی علم علیم ،، کی تفصیل
سوال نمبر 2 میں مذکورہ دونوں آثا ر ’’ المجتبی ،، کےعلاوہ مجھے کسی اور کتاب میں نہیں ملے ۔میرے پاس ’’نہج البلاغہ ،، کےعلاوہ شیعوں کی کوئی ا ورکتاب موجود نہیں ہے ۔’’منہاج السنۃ،، لابن تمیہ طبع جدید کی صرف 2جلدیں موجود ہیں ۔’’ وفوق کل ذی علم علیم ،،۔ اس جملہ کے ذکر کرنے سےاپنی ذی علم ہونے کا ادعاء مقصود نہیں ہےاورنہ اس کا کسی درجہ میں بھی زعم ہی ہے۔ مقصد صرف اپنے قصور کااعتراف کرتےہوئے صاحب علم وخبرۃ کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دینا ہے۔
یہ دونوں ہی اثر ہمارے نزدیک نا قابل اعتبار ہیں ۔دونوں کامدار ابن درید مصنف کتاب پر ہے، اوریہ معلوم ہے کہ گووہ امام لغت وادب اورصاحب قلم اورعظیم مصنف تھا ، مگر شراب کا عادی ہونے کی وجہ سے غیر عد ل تھا ۔اس لیے اس کی کوئی روایت جس میں وہ منفرد ہو جب تک کوئی معتبر راوی متابع نہ ہو مقبول نہیں ہوگی ۔
دوسرا سوال میں مذکورہ اثر کےناقابل اعتبار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ اہل السنت والجماعت کے نزدیک کوئی صحابی بھی خواہ وہ ابوبکر یا علی وصی رسول نہیں ہے۔ آں حضرت ﷺ نےکسی کوبھی اپنا وصی نہیں بنایا ہے۔این درید کایہ اثر اہل السنت والجماعت کےاس متفق علیہ اصل کےخلاف اور اس سےمتصادم ہے۔نیز اس اثر میں حضرت ابوبکر اورتمام مسلمانوں کی طرف حضرت علی کو’’مفرج الکرب ،، کہنے کی نسبت کی گئی ہے جو توحید کےخلاف ہے۔اللہ تعالی کےسوا کوئی بھی چوتھے سوال میں ذکر کردہ اثر کی سند میں ایک راوی ’’دمار ،، ہتےجو مجہول ہے اس کا ترجمہ مجھ کو نہیں مل سکا ۔
عبیداللہ رحمانی مبارکپوری 7؍ جمادی الاولی 1387ھ مکتوب بنام مولانا محمدامین اثری
ماخذ:مستند کتب فتاویٰ