سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(323) اسلامی معاشرہ میں موجود غیر مسلموں کے حوالہ سے کن اقدامات کو بروئے کار لانا ضروری ہے

  • 15618
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 607

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلامی معاشرہ میں موجود غیر مسلموں کے حوالہ سے کن اقدامات کو بروئے کارلانا ضروری ہے تاکہ اسلامی تشخص،اسلامی تہذیب وثقافت اوراسلامی اخلاق وکردارکے تحفظ کا اہتمام کیا جاسکے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کے لئے یہ ازبس ضروری ہے کہ غیر مسلموں کو خیر وہدایت کی دعوت دی جائے،رسول اللہ ﷺجس ہدایت اوردین حق کو لے کر دنیا میں تشریف لائے اس کی اس اسلوب وانداز میں تشریح کی جائے جس کو غیر مسلم سمجھ سکیں نیز ان کے سامنے اسلام کے محاسن کو بھی بیان کیا جائے شاید اس طرح وہ دائرہ اسلام میں آجائیں ،ممکن ہے  کہ اس طرح وہ شرک ،جہالت اورظلم کی تاریکیوں سے نکل کر توحید ،ایمان اورعدل اسلام کے نور کی طرف آجائیں ۔اگر یہ لوگ حق کو قبول کرکے اللہ تعالی کے دین پر استقامت کا مظاہر ہ  کریں توالحمد للہ ،وگرنہ اہل وطن نہ ہونے کی صورت میں انہیں ان ممالک کی طرف بھیج دیا جائے اوراہل وطن ہونے کی صورت میں ان سے کفروشرک سے توبہ کرائی جائے،توبہ کرلیں توٹھیک ورنہ انہیں قتل کردیا جائے بشرطیکہ وہ اہل کتاب یا مجوسی نہ ہوں اوراگر ان کا تعلق اہل کتاب یا مجوسیوں سے ہو توپھر توبہ نہ کرنے کی صورت میں ان سے جزیہ لیا جائے اورذلت ورسوائی کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جائے حتی کہ یہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں اورلوگوں کو بھی ان کا مشر ف بہ اسلام ہونا معلوم ہوجائے تاکہ وہ ان کے شر سے بھی محفوظ رہ سکیں۔

مسلمان معاشرےمیں مل جل کررہنےوالےکفارکےشرسےمحفوظ رہنےکاسب سےبہترطریقہ یہی ہےکہ انہیں اللہ تعالیٰ کےدین کی دعوت دی جائے،احسن اندازکےساتھ ان کادین اسلام کےساتھ تعارف کروایاجائے،اسلام کےمحاسن کی اچھےاسلوب میں ان کےسامنےوضاحت کی جائےاوربتایاجائےکہ اسلام کس قدرمبنی عدل وانصاف دین ہےکہ اسلام قبول کرنےکےبعدان کےبھی وہی حقوق ہوں گےجومسلمانوں کےہیں،ہوسکتاہےکہ اس طرح دعوت دینےسےوہ حق کوقبول کرلیں اورباطل کوچھوڑکردین حق،ہدایت اورسعادت کوقبول کرلیں۔

یہ اس صورت میں ہےجب مسلمانوں کواس کی طاقت ہواوراگرانہیں طاقت حاصل نہ ہوتوپھرانہیں چاہئےکہ خوداللہ تعالیٰ سےڈریں،اپنےدین پراستقامت کےساتھ عمل کرتےرہیں،دشمنوں کےشرسےبچنےکی کوشش کریں،انہیں اللہ تعالیٰ کےدین کی دعوت دینےمیں پوری پوری جدوجہدکریں اوران کےساتھ اختلاط،دوستی،محبت اورمشابہت اختیارکرنےسےاجتناب کریں تاکہ ان کی وسیسہ کاریوں سےمحفوظ رہ سکیں اوراپنےباطل افکارونظریات کےساتھ مسلمانوں کوکوئی فریب نہ دےسکیں واللہ سبحانہ وتعالیٰ ولی التوفیق۔

یہ سب کچھ جوکہاگیااس کاتعلق جزیرۃالعرب کےعلاوہ دیگرممالک سےہےجہاں تک جزیرۃالعرب کاتعلق ہےیہاں کےحوالےسےیہ واجب ہےکہ یہاں غیرمسلموں کوآنےسےروکاجائےاوریہاں کسی بھی غیرمسلم کونہ رہنےدیاجائے۔کیونکہ رسول اللہﷺنےمنع فرمایاہےکہ یہاں کسی غیرمسلم کوباقی رہنےدیاجائے،آپ نےفرمایاتھاکہ یہاں اب صرف اسلام ہی کوباقی رہنےدیاجائےگا،یہودیوں اورعیسائیوں وغیرہ کوجزیرۃالعرب سےنکال دیاجائےلہٰذاوہ یہاں کسی ناگزیرضرورت ہی کی وجہ سےآسکتےہیں اورجب یہ ضرورت پوری ہوجائےتوپھرانہیں یہاں سےنکال دیاجائےجیساکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نےغیرمسلم تاجروں کواجازت دی تھی کہ وہ یہاں صرف ایک محدودمدت ہی کےلئےآسکتےہیں اوراس مدت کےپوراہونےپرپھراپنےملکوں میں واپس جاناہوگا،نبی کریمﷺنےیہودیوں کوبھی محض کام کےلئےخیبرمیں رہنےکی اجازت دی تھی کیونکہ اس کی ضرورت تھی اورجب یہ ضرورت باقی نہ رہی تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نےانہیں جلاوطن کردیاتھا۔حاصل کلام یہ کہ جزیرۃالعرب میں دودینوں کوبرقراررکھناجائزنہیں ہےکیونکہ یہ اسلام کامرکزاورسرچشمہ ہے،یہاں کسی وقت ضرورت ہی کی وجہ سےمشرکوں کورہنےکی حاکم وقت اجازت دےسکتاہےجیساکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نےتاجروں کواجازت دی اورنبی کریمﷺنےخیبرکےیہودیوں کواجازت دی تھی اورجب یہ ضرورت پوری ہوگئی،مسلمان یہودیوں دےبےنیازہوگئےتوحضرت عمررضی اللہ عنہ نےانہیں جلاوطن کردیاتھا۔

جزیرۃالعرب میں رعایاپربھی یہ واجب ہےکہ اس مسئلہ میں حاکم وقت کی مددکریں اوراس کےساتھ مل کرکوشش کریں کہ مشرکوں کویہاں نہ بلایاجائے،ان کےساتھ معاہدہ نہ کیاجائے،کوئی بھی کام ان سےنہ لیاجائےاورہرکام کےلئےمسلمان کارکنوں ہی کواستعمال کیاجائےاورمسلمانوں میں سےبھی صرف انہیں کومنتخب کیاجائےجواخلاق اوردین کےاعتبارسےدوسروں سےبہترہوں کیونکہ کچھ لوگ محض نام کےتومسلمان ہوتےہیں مگرحقیقت میں نہیں،لہٰذاکارکن بنانےاوربلانےوالےکوچاہئےکہ خوب غوروفکرسےکام لیں اورصرف ایسےکارکنوں کوبلائیں جواچھےمسلمان بھی ہوں۔واللہ المستعان۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص447

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ