سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) عورت كا جماعت كروانا اور حکومت کرنا؟

  • 14226
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3500

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کا جماعت کرانا درست ہے یا نہیں؟ عورت کو جماعت کے لیے رسول اللہﷺ اللہﷺ نے حکم دیا تھا یا نہیں؟ یہ جماعت کس مجبوری کے تحت کرائی گئی تھی؟ دوسرا مسئلہ عورت کی سربراہی کا ہے۔ آیا عورت سربراہ ہے یا نہیں؟ اس کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت تحریر کریں۔ (سائل: محمد علی الحدید بازار مغل مارکیٹ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت عورتوں کی جماعت فرض اور نفلی دونوں میں نمازوں میں کرا سکتی ہے۔ مگر وہ مرد امام کی طرح آگے کھڑی ہو کر امامت نہیں کرا سکتی۔ بلکہ امامت کے وقت عورتوں کی صف میں کھڑی ہو گی اور اس کے جواز کا درج ذیل احادیث پیش خدمت ہیں:

۱۔ عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَنْصَارِيَّةِ فَاسْتَأْذَنَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَّخِذَ فِي دَارِهَا مُؤَذِّنًا، فَأَذِنَ لَهَا، وَجَعَلَ لَهَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لَهَا، وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَنَا رَأَيْتُ مُؤَذِّنَهَا شَيْخًا كَبِيرًا۔ (ابو داؤد مع عون المعبود: باب امامة النساء ابو داؤد مع عون المعبود ج۱ص۲۳۰)

’’حضرت ام ورقہ بن نوفل رضی اللہ عنہا حافظہ قرآن تھی، انہوں نے رسول اللہﷺ سے اجازت مانگی کہ وہ اپنے گھر میں موذن رکھ لے تو آپ  نے اس کو مؤذن رکھ لینے کی اجازت عنایت فرما دی اور دوسری رایت مین ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا جو اذان دیتا تھا اور آپ نے اس بی بی کو اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا، ان کا یہ مؤذن بوڑھا شخص تھا۔‘‘

اس حدیث کے دو راوی ولید بن عبداللہ بن جمیع اور عبدالرحمان بن خلاد متکلم فیہ ہیں، مگر امام ابن حبان نے ان دونوں کو ثقہ راوی قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ولید بن عبداللہ صحیح مسلم کا راوی ہے۔ علامہ عینی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

قلت ذکرھما ابن حبان فی الثقات، قال العینی فی شرح الھداية فالحدیث اذا صحيح۔ (التعلیق المغنی: ج۱ص۴۰۴)

عَنْ رَيْطَةَ الْحَنَفِيَّةِ , قَالَتْ: «أَمَّتْنَا عَائِشَةُ فَقَامَتْ بَيْنَهُنَّ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ» (الدار قطنی: باب صلوة النساء جماعة وموقف امامھن ج۱ص۴۰۳)

’’بی بی ریطہ حنفیہ کہتی ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہم کو فرض نماز پڑھائی اور ہمارے درمیان کھڑی ہوئی تھیں۔‘‘

۳۔ مصنف عبدالرزاق میں یہ حدیث اس طرح ہے:

أَنَّ عَائِشَةَ «أَمَّتْهُنَّ وَقَامَتْ بَيْنَهُنَّ فِي صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ»

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان کھڑے ہوکر فرض نماز پڑھائی۔ وقال الامام شمس الحق قال النووی فی الخلاصه سنده صحیح۔

۴۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث ان الفاط میں ہے:

عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَؤُمُّ النِّسَاءَ تَقُومُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِّ۔ (التعلیق المغنی ج۱ص۴۰۵)

’’عطاء تابعی سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور صف کے اندر کھڑی ہوا کرتی تھی۔‘‘ ورواہ الحاکم أیضا من طریق ابن أبی یعلی۔ (تلخیص الحبیر: ۲ص۴۲)

۴۔ عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ , عَنْ حُجَيْرَةَ بِنْتِ حُصَيْنٍ , قَالَتْ: «أَمَّتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ فِى صَلَاةِ الْعَصْرِ فَقَامَتْ بَيْنَنَا» . حَدِيثٌ رَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَأَةَ , عَنْ قَتَادَةَ فَوَهِمَ فِيهِ , وَخَالَفَهُ الْحُفَّاظُ شُعْبَةُ , وَسَعِيدٌ وَغَيْرُهُمَا (الدار قطنی ج۱ص۴۰۵)

’’حجیرہ بنت حصین کہتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہم عورتوں کو عصر کی نماز پڑھائی، پس کھڑی ہوئیں ہمارے درمیان۔‘‘ حجاج بن ارطاۃ راوی کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے مگر امام ابن حجرارقام فرماتے ہیں:

أَخْبَرَنَا الشَّافِعِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ قَوْمِهِ، يُقَالُ لَهَا: حُجَيْرَةُ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا أَمَّتْهُنَّ فَقَامَتْ وَسَطًا. ولفظ عبدالرزاق أمتنا أم سلمة فی صلاة العصر فقامت بیننا۔ (تلخیص الخبیر: ج۲ص۴۲)

وقال النووی سنده صحیح واخرج ابن ابی شیبة عن عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادة، عَنْ أُمِّ الْحَسَنِ، أَنَّهَا رَأَتْ أُمَّ سَلَمَمة زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْه وَسَلَّمَ: تَؤُمُّ النِّسَاءَ تَقُومُ مَعَهُنَّ فِي صَفِّهِنَّ (التعلیق المغنی: ج۱ص۴۰۵)

’’بی بی ام الحسن کہتی ہیں کہ میں نے ام سلمہ کو عورتوں کی امامت کراتے ہوئے دیکھا ہے، وہ عورتوں کی صف میں کھڑی ہو کر امامت کراتی تھیں۔‘‘

۷۔ أخرج عبدالرزاق فی مصنفه اخبرنا ابراھیم ابن محمد عن داؤد ابن الحصین عن عکرمة عن ابن عباس قال تؤم المرأة النساء تقوم وسطھن۔ (التعلیق المغنی: ج۱ص۴۰۴)

’’حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ عورت عورتوں کی امامت کرائے اور ان کے درمیان کھڑی ہوا کرے۔‘‘

۸۔ شراح حدیث کی فیصلہ کن آراء:

امام محمد بن اسماعیل الیمانی ارقام فرماتے ہیں: والحدیث (حدیث ام ورقۃ) دلیل علی صحيحة إمامة المرأة أھل دارھا وإن کان فیھم الرجل۔ (سبل السلام: ج۲ص۲)

کہ ام ورقہ والی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت اپنے گھر والوں کی امامت کرا سکتی ہے، خواہ ان میں آدمی بھی ہو۔

عورت کی امامت جائزمگر حکمرانی ناجائز

۱۔   امام الشمس الحق فیصلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ثبت من ھذا الحدیث أن إمامة النساء وجماعتھن صحیحة ثابتة من أمر رسول اللہﷺ۔ (عون المعبود: ج۱ص۲۳۰)

’’عورتوں کا آپس میں امامت کرنا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق بالکل صحیح اور ثابت شدہ حقیقت ہے۔‘‘

نیز اپنی دوسری کتاب میں ارقام فرماتے ہیں:

وھذا الروایات کلھا تدل علی استحباب إمامة المرأۃ للنساء فی الفرائض والنوافل وھذا ھو الحق وبه یقول الشافعی والاوزاعی والثوری واحمد وابو حنیفة وجماعة رحمھم اللہ۔ (فتاوی علماء حدیث: ج۲ص۱۸۷)

’’یہ تمام حدیثیں دلیل ہیں کہ ایک عورت کا امام بن کر دوسری عورتوں کو فرضی اور نفلی نمازیں باجماعت پڑھانا مستحب امرہے۔ امام شافعی، امام اوزاعی، امام سفیان ثوری، امام احمد، امام ابوحنیفہ اور علماء کی ایک جماعت کا یہی قول اور فتویٰ ہے۔

۳۔ امام عبدالجبار غزنوی کا فتویٰ: آپ ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں کہ مطلق امامت اور جماعت کرانا عورتوں کو منع نہیں۔ عورتوں کے واسطے عورت کی امامت جائز ہے، مگر آگے کھڑی ہو کر نہ ہووے سب کے بیچ کھڑی ہووے۔ (التعلیق المغنی: ج۱ص۴۰۵)

۴۔السید محمد سابق مصری (محقق دور حاضر) إستحباب إمامۃ المرأۃ النساء کے تحت لکھتے ہیں کہ فرض نماز کے لیے کسی عورت کی امامت مستحب ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی صف میں کھڑی ہو کر ان  کی امامت کرایا کرتی تھیں اور رسول اللہﷺ نے خو ام ورقہ کے لیے مؤذن مقرر کیا تھا اور اس کو اپنے گھر والوں کی امامت کا حکم دیا تھا۔ (فقہ السنۃ: ج۱ص۲۰۰)

۵۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے مطابق علامہ کمال ابن ہمام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ عورت کی امامت جائز ہے۔ (بذل المجھور: ج۱ص۳۳۱)

فیصلہ:

مندرجہ بالاسات روایت بحثیت مجموعی اس مسئلہ میں مضبوط ترین دلیل اور فیصلہ کن کہ ایک عورت دوسری عورت کی صف کے درمیان کھڑی ہوکر فرائض اور نوافل میں ان کی امامت کراسکتی ہے اور اس کی امامت بلاشبہ صحیح اور رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق عین سنت ہے۔ اس سنت کو کسی فرضی مجبوری پر محمول کرنا یا اس کو منسوخ خیال کرنا سراسر غلط اور سنت کے خلاف ہے۔ غرضیکہ یہ سنت کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ ھذا ما عندي واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

جواب نمبر۲: عورت اپنی فطرت اور جبلت کے لحاظ سے نہ تویہ حکومت کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور نہ حکومت اس کے بس کا روگ ہے۔ یہ تو بس بچوں کی تولید وتربیت اور گھر کی زیب وزینت کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ اس کا حاکم بن جانا اس کی فطرت کے عین خلاف ہے۔ جو کسی ملک وقوم کے حق میں نیک فال نہیں ہوسکتا، چنانچہ جب ایرانیوں نے بوران دخت نامی عورت کو اپن حکمران بنالیا تھا تو آپﷺ نے ان کے اس فیصلہ پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا:

((لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَّلَّوْا أَمَرَھُمْ إِمْرَأةُ)) (صحیح البخاری کتاب النبیﷺ الی کسری وقیصر ج۲ص۶۳۷)

’’ہرگز نہین فلاح پائے گی وہ قوم جس نے عورت کو اپنا حکمران بنالیا۔‘‘

تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی اس پیش گوئی کے تھوڑے عرصہ بعد کسری کی صدیوں پرانی مستحکم ترین سلطنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔ مگر عورت کی حکمرانی کی نفی سے نماز میں اس کی امامت کی نفی کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص414

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ