سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(250) جلوس میں شامل ہونا شرعاً صحیح ہے؟

  • 14100
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 945

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایسٹ ہیم لندن سےراجہ محمد رفیق لکھتےہیں

(۱)کیا غیر مسلم ملکوں میں رہ کر مسلمان ملکوں کےلئے جلسے جلوس نکالنا جائز ہے؟

مثلاً افغان مجاہدین ‘مسجد اقصیٰ کےلئے۔ جو لوگ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے منصوبے بناتےرہے ہیں وہ ہمیں کیا حقوق دلائیں گے۔  میرا مقصد یہ ہے کہ جلوس میں شامل ہوناشرعی لحاظ سے جائز ہے یا ناجائز؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان جہاں بھی رہتے ہوں وہ اپنے دین پر کاربند رہتے ہیں اپنے دینی فرائض ادا کرتےہیں اور اپنے عقیدے کےتحفظ کے لئے جدوجہد کرتےہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے مسائل جاننا ’انہیں حل کرنے کی سعی کرنا اور ان سے تعاون و مدد کرنا یہ بھی مسلمانوں کے دینی فرائض میں شامل ہے اور ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مجبور و مظلوم بھائی کی اپنی استطاعت کےمطابق مدد کرے۔ اس طرح اگر کسی جگہ اس کےبھائیوں پر ظلم و زیادتی ہورہی ہو تو اس کےخلاف آواز بلند کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ظلم روک نہیں سکتا یا ظالم کےہاتھ نہیں پکڑ سکتا تو کم از کم اس کے خلاف آواز کو بلند کرسکتا ہے یا اس ظلم کے خاتمے کےلئے جو لوگ جدوجہد کررہے ہوں ان سے تعاون تو کرسکتاہے۔ دور حاضر میں مسلمان دنیا کےمختلف ملکوں میں ظلم و ستم کا شکار ہیں’ ان کی جانیں اور عزتیں خطرے میں ہیں۔ ایسے حالات میں ان کی حمایت میں آواز بلند کرنا اور دنیا کو اس طرح متوجہ کرنا نیکی اور بھلائی کاکام ہے۔ کشمیر افغانستان فلسطین اور دوسرے خطوں میں مسلمان محکوم و مظلوم ہیں اور ظالموں کے شکنجے میں بر ی طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ موجودہ دور میں جلوس اور مظاہرے ظالموں کےخلاف جدوجہد کا ایک حصہ ہیں۔ اس لئے اگر اس نیت سےان جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کی جائے کہ اس سےظلم کے خلاف آواز بلند ہوگی اور ظالم بے نقاب ہوں گے تو یہ نہ صر ف جائز ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے اور ظلم و زیادتی یا اسلام کےخلاف کوئی حرکت غیرمسلم کرے یا اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے والے یہ کام کریں دونوں کےخلاف کسی بھی موثر طریقے سےاحتجاج کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اگر نیت صحیح ہے تو ایسا شخص اجروثواب کا بھی مستحق ہوگا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص542

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ