سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(229) حرام چیزوں کے استعمال کے باوجود یورپ ترقی کر رہا ہے؟

  • 14079
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1517

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مغربی جرمنی سے کسی صاحب نے پوچھا ہے۔

سور‘شراب ‘زنا ‘جوا‘کیوں حرام ہیں۔ اسلام کے نزدیک جس قوم میں یہ برائیاں ہوں وہ ترقی نہیں کرسکتی۔ اس کے باوجود یورپ کیوں ترقی کررہا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں   تک شراب ‘جوئے ‘زنا ‘خنزیر اور سور وغیرہ کے حرام ہونے کی وجہ اور سبب  کا تعلق ہے تو اس بارے میں دوباتوں  کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ  ہر انسان کے لئے یہ معلوم کرنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ فلاں چیز کیوں حرام ٹھہرائی گئی اور کس وجہ سے اس کا استعمال کرنا ممنوع ٹھہرایا گیا ۔ کیونکہ جو چیزیں حرام ٹھہرائی  گئی ہیں  ان کی خباثتیں یا نقصانات کا معلوم کرلینا یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا ایک ہی چیز کا نقصان ایک آدمی اپنے علم اور تجربے سے معلوم کرلیتا ہے جب کہ دوسرے کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں اور پھر ایک حرام کردہ چیز کی خباثت ایک زمانے میں ظاہر نہیں ہوتی جب کہ دوسرے زمانے میں وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔

مثلاً سور کے گوشت کی مثال ہی لیجئے کہ جب یہ حرام کیا گیا تو اس وقت شاید ہی کسی کو  اس کی حرمت کا سبب یا علت معلوم تھی لیکن سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ انکشافات ہوتے گئے کہ اس میں ایسے مہلک جراثیم اور کیڑے ہوتے ہیں جو بے شمار بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں بہرحال کوئی انکشاف ہو یا نہ ہو مسلمان اس عقیدے پر قائم رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور حکیم و خبیر ہے اس لئے یہ اسی کا حق ہے کہ جس چیز کو چاہے حلال ٹھہرائے اور جسے چاہے حرام قرار دے دے اس پر اعتراض کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اہل علم کا یہ فرض ہے کہ وہ خلق خدا کے سامنے ان محرمات کے نقصانات  اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں واضح کریں تا کہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر لوگوں کا یقین اور زیادہ پختہ ہو۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب ہرانسان کے بس میں ایک چیز کی اصلیت یا ماہیت معلوم کرنا نہیں ہے تو پھر آخر اسے کس چیز پر انحصار کرناہوگا؟ ظاہر ہے وہ صرف اور صرف وحی الہٰی ہے مگر ایک شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اس کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے نبی و رسول ہیں تو پھر اسے چیزوں کی حلت و حرمت کا اختیار اللہ وحدہ لاشریک ہی کو  دینا ہوگا ‘کسی عالم‘درویش ‘ بادشاہ یا حکمران کو یہ اختیار دینے کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا خدا اور قرآن پر ایمان نہیں  ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو کسی چیز کی حرمت و حلت کے بارے میں شک ہے تو پہلے اسے قرآن و اسلام کے بارے میں اپنے عقیدے کا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ان کی سچائی پر اس کا ایمان ہے  تو پھر خالق کائنات کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا چاہے  اس کی حکمت یا فلسفہ اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے (یہ ضروری نہیں)

شراب: اب شراب کو ہی لیجئے اس کی حرمت کی سب سے بڑی وجہ اور سبب تو یہ  ہے کہ اسے اس ذات نے حرام ٹھہرایا ہے جو چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کی خوبیوں اور مضرتوں کا صحیح علم  رکھنے والا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اسے کیوں حرام  ٹھہرایا ؟ا س کا کیا نقصان ہے؟ اس بارے میں موجودہ دور میں یہ بات تقریباً متفق علیہ ہوچکی ہے کہ شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کے بے شمار طبی اور معاشرتی نقصانات ہیں جس سے انسان کی صحت اور اخلاق دونوں پر اثر پڑتا ہے اور آج ان کی بہتات اور کثرت استعمال دنیا بھر کے لئے مسئلہ بن چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ شراب کے کچھ فوائد بھی ہیں تو قرآن  نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس کے نقصانات منافع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لہٰذا یہ حرام ہے اور جدید تحقیق نے اس کے نقصانات واضح کردیئے ہیں۔

جوا: قرآن نے شراب کے ساتھ ہی جوئے کاذکر بھی کیا ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے ایک بیماری کا شکار ہونے والا دوسری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہارے ہوئے جواری اکثر شراب کے ذریعے ہی عارضی اور مصنوعی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ جوئے کے نقصانات فرد اور معاشرے دونوں کے لئے بالکل واضح ہیں جنہیں  سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے فلسفے کی ضرورت نہیں اس کھیل میں  محنت اور وقت دونوں کی بربادی ہے ۔ جواریوں  کے درمیان بغض و عداوت اکثر قتل وغارت تک پہنچتی  ہے اور اس مرض میں مبتلا عیاش لوگ خاندان کا کاروبار اور معاشرتی روایات سب کو تباہ کرنے پر تیاہ ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگ محض آرزوؤں کے سہارے زندہ رہتے ہیں ۔ محنت اور اسباب کی تلاش کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ صرف بازی جیتنے کے لئے بسا اوقات  دین ’عزت اور وطن کو بھی داؤ پر لگا دیتےہیں اسی لئے قرآن نے انہیں رجس من عمل الشیطان کہا کہ گندے شیطان کام ہیں ’ان سے بچ کررہو۔

خنزیر: جدید طب نے خنزیر کے گوشت کے نقصانات واضح کردیئے ہیں کہ اس کا کھانا ہر خطے خصوصاً گرم ممالک میں انتہائی نقصان دہ ہے ۔ بعض سائنس دانوں نے یہ  بھی کہا ہے کہ اس کے کھانے سے جسم میں خطرناک قسم کے کیڑے پیدا ہوجاتےہیں۔ مسلم ماہرین نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق خنزیر کے گوشت کے زیادہ استعمال سے غیرت کم ہوجاتی ہے ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتےہیں کہ اگر اتنا ہی نقصان دہ ہے تو انگریز اور دوسرے غیر مسلم اتنی کثرت سے استعمال کیوں کرتےہیں۔ تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ مغربی ممالک کے لوگ یا دوسرے غیر مسلم ہر اس چیز سے دور رہتے ہوں جو نقصان دہ ہو۔ سگریٹ کے استعمال سے جو خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور سرطان کے اسباب میں بھی اب سگریٹ نوشی  کو شامل کرلیا گیا ہے۔ کیا اس کے بعد یورپ والوں نے سگریٹ نوشی چھوڑدی ہے؟ اس لئے یہ کوئی دلیل نہیں کہ شراب اور خنزیر کے نقصان  سے یہ بچے ہوئے ہیں بلکہ ان ساری بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود یہ ان گند گیوں کے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور یہی چیز ان  کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گی۔

زنا: اسلام دین فطرت ہے اس لئے ا س نے فطری  خواہشات کی بھی حدود مقرر کردی ہیں۔ اگر انسان کو جنسی خواہشات کے لئے آزاد چھوڑدیا جائے اور زنا کوجائز قرار دے دیا جائے تو خاندانی اور عائلی زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ حسب و نسب اور حقوق و فرائض کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے نہ تو یہ کیا کہ اس کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا کہ جہاں چاہے جانوروں کی طرح اپنی خواہش پوری کرلے اور کوئی دینی یا  اخلاقی رکاوٹ بھی اس کے سامنے  نہ ہو اور نہ ہی اس سے ٹکرانے کی اجازت دی کہ گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے اور شادی بیاہ اور دوسری دنیاوی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کرکے رہبانیت اختیار کرلی جائے ۔ بلکہ اسلام نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے کہ کچھ حدود مقرر کی ہیں جن کے اندر رہ کر نکاح کی شکل میں خواہش پورا کرنے کی اجازت دی اور ان حدود سے باہر زنا کی شکل کو حرام و بے غیرتی قرار دیا اور صرف اسلام ہی کا نہیں بلکہ تمام آسمانی مذاہب ہا یہی موقف ہے۔

اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جس قوم میں یہ بیماریاں آجائیں وہ ترقی کرسکتی ہے یا نہیں اور یورپ والوں میں یہ بیماریان پائی بھی جاتی ہیں پھر بھی وہ ترقی کررہے ہیں؟

یہ بڑا نازک سوال ہے اور اکثر لوگ اس شبہ میں مبتلا ہوکر دھوکہ کھاجاتےہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ترقی صرف مادی وسائل کی بہتات کا نام نہیں کہ جس قوم کے پاس ہتھیاروں یا دنیاوی اسباب کی بہتات ہو  وہ ترقی یافتہ ہے ہمارے نزدیک ترقی یافتہ وہ قوم ہے جس نے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ  اخلاقی اور روحانی قدروں کو بھی اجاگر  کیا ہو اور ان کا بھی تحفظ کررہےہوں۔جیسا کہ اسلام  کے روشن دور کی مثالیں ہمارے سامنے موجو ہیں۔ آج جنہیں آپ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں وہ اخلاقی اور روحانی طور پر اس قدر کھوکھلے  ہوچکے ہیں کہ اگر بداخلاقیوں  اور بد کردار یوں کی رفتار یہی  رہی تو اہل مغرب  بہت جلد انہتائی بھیانک انجام  سے دوچار ہوں گے۔ آپ ہی بتائیں کہ نیو یارک جو دنیا کے معیار  کےمطابق مہذب ترین اور سب سے  ترقی یافتہ ملک کا مرکزی شہر ہےوہاں چند گھنٹوں کے لئے اگر بجلی فیل ہوجائے تو  حیوانیت و درندگی کس طرح ناچتی ہے نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ مال ایک رات میں چوریوں اور ڈاکوں کا شمار کرکے بتائیں کہ اسی کا نام ترقی ہے؟جبکہ زنا شراب اور جوئے کی وجہ سے وہاں جتنے قتل  اور فسادات ہورہے ہیں وہ اس سے الگ ہیں۔ ہتھیاروں کی ترقی کا انجام بھی برا نظر آتا ہے  شاید  یہ کسی بدحواسی میں آکر اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیاروں سے تباہ برباد ہو جائیں اور جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اکثر ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہاں آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دنیاوی اور مادی لحاظ سے ان لوگوں کو مسلمانوں پر فوقیت  حاصل  ہے لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی قابل غور بات ہے ۔ یہ اس لئے ہے کہ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ غالب رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں ان کی ہمیشہ مددکرے گا اورر اس کی تکمیل اسی شکل میں ہوگی جب مسلمان اللہ سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا  کریں اور اللہ نے  بارہا یہ وعدہ پورا کیا کہ جب  مسلمانوں نے اس کی سچی اطاعت کی تو پھر  وسائل کی کمی کے باوجود انہیں غالب و کامیاب کیا۔ اور اگر دونوں شرابی دونوں زانی یعنی کفار بھی عیاش اور مسلمان بھی عیاش دونوں بد عمل و بد کردار  ہوجائیں تو  پھر اللہ کے نزدیک دونوں برابر ہیں۔ جو تعداد اور مادی قوت میں زیادہ ہوگا وہ دوسرے  پر غالب آجائے گا۔موجودہ صورت حال ایسی ہی کہ  کفار دشمن اسلام   بھی ہیں’زانی و شرابی  بھی ہیں  مگر پھر مسلمانوں پر غالب اور مادی لحاظ سے ان سے آگے ہیں کیونکہ عیاش ہونے کےباوجود وہ محنت بھی کرتےہیں اور زندہ رہنے کے کچھ اصولوں پر کاربند بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمان  اپنے دین سے باغی بھی ہیں۔ زناو شراب کو بھی جائز ٹھہرائے ہوئے ہیں اللہ کے قانون کو اپنے ملکوں  سے دیس نکالا بھی دیا ہوا ہے اور ان عیاشیوں اور بغاوتوں  پر اضافہ یہ کہ محنت بھی نہیں کرتے اور  معاملات و اخلاق میں کوئی اصول و ضابطہ بھی نہیں تو ظاہر ہے یہ دوسروں سے پیچھے ہی رہیں گے بلکہ اللہ سے عہد کرنے کے بعد پھر یہ بغاوت  و سرکشی  زیادہ  ناراضگی کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری ہی مسلمانوں کی امتیازی شان ہے۔ یہ نہ رہی تو پھر کفار اپنی محنت و قوت سے ان پر غالب آسکتے ہیں۔ اس بحث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کفار کےلئے شراب و زنا یا دوسرے گناہ مفید ہیں اور نقصان دہ نہیں اور ان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں۔ بلکہ یہاں   بھی کچھ خدائی قوانین وضابطے ہیں جنہیں قرآن بیان کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

’’جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی شان حاصل کرنے کےلئے کوشش کرتا ہے تو ہم اس کو کوشش کے صلے میں پوری پوری عطا کرتےہیں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑتے مگر  صرف دنیا کے طالبو ں کے لئے آخرت میں سوائے جہنم  کی آگ کے اور کچھ نہیں ہوگا۔‘‘(ھود:۱۵۔۱۶)

اب اس سے واضح ہوگیا کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول کی خاطر محبت کرنے والوں کو ان کی محنت کا پورا پورا صلہ عطا کرتا ہے۔ لیکن اس ساری ترقی یا قوت کے باوجود  کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ مسلسل نافرمانیوں اور سرکشیوں میں رہنےکی وجہ سے اچانک عذاب الہٰی کی لپیٹ میں آجاتےہیں ۔ ارشادربانی ہے:

’’اور  کتنے ہی بستیوں والے جو اپنی معیشت کی ترقی پر اترانے لگ گئے ہم نے ان کو ایسے صفحہ ہستی سے مٹایا کہ اس جگہ بعد میں کوئی کم ہی آباد ہے اور بالاخر ہر چیز ہماری ملکیت میں آگئی۔‘‘ (قصص: ۵۸)

اور بعض اوقات انہیں مہلت بھی دی جاتی ہے اور جوں جوں سرکشی و بغاوت میں  زیادہ ہوتے ہیں بظاہر وسائل  و اسباب  بھی کثرت سے دیئے جاتے ہیں اور پھر اچانک عذاب الہٰی کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے

’’جب وہ نصیحت  کی چیزوں کو بھول گئے تو ہم نے ہر چیز کے دروازے ان پر کھول دیئے۔ یہاں تک کہ وہ اکڑنے لگے تو اچانک ہم نے پکڑ لیا اور پھر ناکامی  کے سوا انہیں اور کچھ نہیں ملا۔‘‘(انعام:۴۴)

یہ اور اس طرح کی دوسری آیات میں قرآن نے قوموں کے عروج و زوال پر  بڑے پیارے انداز سے روشنی ڈالی ہے اگر آپ بغور ان کا مطالعہ کریں تو مسلمانوں کے زوال اور غیر مسلموں کی ظاہری چمک دمک کے اسباب باآسانی آپ کی سمجھ میں ٖآ ٓجائیں گے۔

مختصر یہ کہ اخلاقی و معاشرتی برائیاں کسی قوم کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوسکتیں چاہے وہ موجودہ مسلمانوں کی  طرح  کوئی پس ماندہ قوم ہو یا دنیا کی مادی قوتوں کی طرح ترقی یافتہ ۔ سلطنت روم کے عروج و زوال کی داستان کا مطالعہ کریں۔ بغداد کے عروج اور اندلس کی ترقی کودیکھیں اور پھر ان کی تباہی کےاسباب کا جائزہ لیں۔ دور نہ جایئے اپنے ہاں سلطنت مغلیہ کی تباہی اور زوال ہی کی تاریخ کامطالعہ کرلیں۔ ہر جگہ آپ کو قانون قدرت یکساں نظرآئے گا ۔ اسکے ضابطے اٹل ہیں۔ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ موجودہ بین الاقوا می صورت حال توہمارے یقین اور ایمان کو پختہ کررہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ترقی وقوت کے سہارے جینے والے شاید آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں اور پھر خدا کسی دوسری قوم کو ان کی جگہ لا کربسائے۔

اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اسلام ترقی کا ہرگز مخالف نہیں لیکن اسلام ترقی کے نام پر اخلاقی گراوٹ اور روحانی فساد کی اجازت بھی نہیں دیتا ۔ جولوگ یہ سمجھتےہیں کہ علماء یا  اسلامی قدریں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ترکی میں کاکمال اتاترک  نے ۱۹۲۴ء میں اپنے خیال سے عربی کا وجود مٹایا  اور ملا کر راستے سے ہٹایا یہ سمجھ کر کہ یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دین وملا کے ہٹ جانے کے بعد کیا وہاں واقعی ترقی ہوئی ہے ۔ ہوٹلوں سینماؤں میں تو ترقی نظر آئے گی لیکن آج تک وہاں سیاسی سکون اور معاشی ترقی نہیں ہوسکی۔ بلکہ وہ قوم آج پھر روحانی قدروں  کی طرف تیزی سے لوٹ رہی ہے اور وہاں چند سالوں کے بعد کمال اتاترک کا نام لینے والا بھی شاید کوئی باقی نہ رہے۔ ماضی قریب میں شاہ ایران کا انجام بھی ہمیں یہ سوال حل کرنے میں کافی مدد دے سکتاہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص492

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ