سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) ختم شریف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • 13903
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 9643

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لندن سے محمد رفیق لکھتے ہیں ختم شریف کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ چہلم ’عرس’سالگرہ ’جمعرات کا ختم اور چالیسواں کا ختم پڑھنا اور بزرگوں کی قبروں پر چراغ جلانا  یا بکرے دینا یا نذرونیاز کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل مسئلے پر بحث سے قبل اس امر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ شریعت میں وہی عمل قابل قبول ہوگا اور اس کے کرنے پر ثواب ملے گا جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو یا صحابہ کرامؓ نے اس پر عمل کیا ہو اور جو کام شریعت سمجھ کر یا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے کیا جائے اور وہ قرآن و سنت یا صحابہ کے عمل سے ثابت نہ ہو تو وہ درست نہیں ہوگا۔ دنیاوی کام جو انسان مختلف ضروریات کےلئے کرتا ہے ‘مقصود اجروثواب حاصل کرنا یا تقرب ڈھونڈنا نہیں اور نہ ہی وہ ایسے کاموں کو شریعت سمجھتا ہے تو یہ بدعت کے زمرے میں نہیں آتے۔ حالات و ظروف کے مطابق انسان لباس‘ سواری اور دوسرے معاملات میں نئی نئی چیزیں استعمال کرتا ہے کوئی بھی شریعت سمجھ کر استعمال نہیں کرتا  اور کوئی بھی عینک یا ٹوپی اس لئے استعمال نہیں کرتا  کہ اس طرح زیادہ ثواب ملے گا۔ لہٰذا ان کاموں کو دین میں اضافہ نہیں کیا جائے گا ۔ یہ دنیاوی اسباب کے ضمن میں آتے ہیں۔ جنہیں ہر شخص جائز و حلال وطریقے سے حاصل کرسکتا ہے۔ لہٰذا اہل بدعت کے اس فریب میں نہیں آنا چاہئے کہ اگر نئی چیز بدعت ہیں تو پھر مذکورہ چیزیں یعنی عینک شیروانی کار وغیرہ بھی تو حضور کےزمانے میں نہیں تھیں۔

  جہاں تک ختم شریف کا تعلق ہے تو اس وقت جو شکلیں اس کی رائج ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ کسی میت کے بعد  اس کے ورثاء تیسرے ’ساتویں اور چالیسویں دن مختلف انواع و اقسام کے کھانے پکاتے ہیں اور اپنے عزیزواقارب کو مدعو کرتےہیں پھر مولوی صاحب کو بلاتے ہیں وہ کچھ پڑھتےہیں اور پھر سارے مل کر کھالیتے ہیں۔ پاکستان میں غریبوں مسکینوں کو خبر ہو جائے تو وہ بھی کچھ حاصل کرلیتےہیں۔ لیکن یہاں اس کا بھی کوئی امکان نہیں۔ بہرحال اس مروجہ رسم میں کسی غریب یا مسکین تک اس کا حق پہنچانے کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔

   دوسری شکل یہ ہے کہ میت کےبعد اس کے ورثاء کسی دن کا تعین تو نہیں کرتے کسی بھی دن کھانا پکایا جاتا ہے لیکن دعوت اس میں بھی دوستوں یا برادری ہی کو ہوتی ہے غرباء کو یہاں بھی مکمل طور پر نظر انداز کیاجاتا ہے۔

تیسری شکل یہ ہے کہ میت کے لئے نہیں بلکہ شب برات ‘شب قدر‘ محرم ‘جمعرات کو ‘۱۲ ربیع الاول یا کسی اور مناسبت سے عمدہ کھانے پکائے جاتے ہیں ۔ پھر گھر والے خود یا مولوی صاحب اس پر ختم پڑھتے ہیں پھر خود اس کھانے کو کھاتےہیں۔

غور سے دیکھا جائے تو ان تینوں شکلوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ مروجہ ختم ہو یا رسم قل کی مختلف شکلیں دو باتیں آپ کو دونوں میں نمایاں نظر آئیں گی۔ ایک یہ کہ غرباء و مساکین کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ دوسری یہ کہ دونوں جگہ  عزیزو اقارب اور مولوی صاحبان نمایاں نظر آئیں گے۔ ہم مندرجہ ذیل دلائل کی بنیاد پر ان مروجہ رسموں کو ناجائز سمجھتےہیں۔

(۱)قرآن وحدیث میں ان رسومات کاکوئی ثبوت نہیں۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام سے اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں۔ چاروں اماموں کے دور میں یہ قل کی رسم یا جمعرات کا ختم وغیرہ کا کہیں ذکر نہیں۔

(۲)کھانے سے پہلے جو ختم کے الفاظ رائج ہیں یا کوئی سورت پڑھی جاتی ہے اس کا بھی رسول اللہ ﷺ یا صحابہ ؓ سے ثبوت نہیں۔ آپ کھانے پر بسم اللہ پڑھتے اور ختم کرنے کے بعد آپ سےمتعدد دعائیں ثابت ہیں۔

(۳)چونکہ ان  تمام جگہوں پر پکایا جانے والا کھانا غریبوں کی بجائے امیروں کو بلکہ اپنے عزیزوں یا رشتہ داروں کو کھلایا جاتا ہے اس لئے اسے ایصال ثواب کے لئے قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔

(۴)اپنی طرف سے کسی دن کا مقرر کرلینا جب کہ شریعت میں اس دن کے  تعین کا ثبوت نہ ہو’ یہ بھی درست نہیں۔ اگر ان موقعوں پر پکایا جانے والا کھانا غریبوں ہی کو دیا جائے تب بھی تیجا ’ساتواں  یا چالیسواں  کانام دے کردن مقرر کرنا غلط ہے۔

حضور ﷺ سے رمضان المبارک میں زیادہ صدقہ کرنے کی فضیلت حدیث سے ثابت  ہے ۔ اگر تیسرے ’ساتویں یا چالیسویں دن کی بھی کوئی اہمیت ہوتی تو آپ اس کا ذکر ضرور فرماتے۔ا س لئے ایصال ثواب کے لئے دن کا اپنی طرف سے متعین کردینا’ یہ دین میں اضافہ ہے۔

(۵)اس طرح کی رسومات کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگ انہیں اصل دین سمجھ لیتے ہیں اور کسی حالت میں بھی ان بے ثبوت کاموں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ وہ فرائض کی پرواہ تو نہیں کرتے سنتوں کی تو ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں  ہوئی۔ لیکن رسومات ہر شکل میں ادا کرتے ہیں۔ یتیم بچے ہوں یا بیوہ عورت رہ جائے تو انہیں بھی ایسی رسومات کرنے پر مجبور  کیا جاتا ہے اور بعض لوگ تو قرض لے کر بھی یہ رسمیں پوری کرتے ہیں۔ لہٰذا اس غیرضروری غیر ثابت رسم کے خاتمے کےلئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ لوگوں پر خواہ مخواہ بوجھ نہ پڑے اور غیر شرعی کاموں کے کرنے پر وہ مجبور نہ ہوں۔

ایصال ثواب

   اب رہا ایصال ثواب کا مسئلہ کہ صدقات و خیرات کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں؟

اس سلسلے میں ائمہ دین اور امت کے علماء کی مختلف آراء ہیں جن میں دو قابل ذکر ہیں۔

اول یہ کہ انسان کو انہی اعمال کی جزاوسزا ملے گی جو خود اس نے کئے ہیں۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس رائے کی تائید میں قرآن  کی یہ دو آیات پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی آیت ہیں

﴿لّا تَزِرُ‌ وازِرَ‌ةٌ وِزرَ‌ أُخر‌ىٰ ﴿٣٨﴾... سورةالنجم

’’کوئی نفس دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

دوسری یہ کہ:

﴿ وَأَن لَيسَ لِلإِنسـٰنِ إِلّا ما سَعىٰ ﴿٣٩﴾... سورةالنجم

’’یعنی انسان کےلئے وہی کچھ ہے جو اس نے کوشش کی۔‘‘

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان آیات کے رو سے مرنے کے بعد انسان کا اعمال سے رابطہ کٹ جاتا ہے مگر کچھ اعمال مرنے کے بعد بھی اسے فائدہ پہنچاتے رہتےہیں اور یہ وہ اعمال ہیں جن سے مرنے والے کا زندگی میں کسی نہ کسی نوع کا تعلق ہوتا ہے۔ اس  کی تائید یہ فرمان نبویﷺ کرتا ہے۔

اذا مات الانسان انقطع عمله الا من صد قة جاریة او علم ینفع به او ولد صالح ید عوا له۔(مختصر  صحیح مسلم کتاب الجنائز باب ایصال الثواب رقم الحدیث ۱۰۰۱)

’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا ثواب موقوف ہوجاتا ہے مگر تین عملوں کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔ اگر اس نے صدقہ جاریہ کیا یا اس کے علم سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں یا اس کی نیک اولاد  جو اس کے لئے دعا کرتی ہے۔‘‘

دوسری رائے یہ ہے کہ ایصال ثواب کے لئے اگر صدقہ کیا جائے تو میت کو اس کا ثواب پہنچتا ہے لیکن یہ موقف  اس شکل میں درست ہوگا جب ان قباحتوں سے خالی ہو جن کا ہم نے شروع میں ذکر کیا ہے لیکن اصل عمل پھر بھی وہی ہے جو آدمی اپنی زندگی میں کرتا ہے اس لئے مرنے سے پہلے ہی اعمال خیر کا خزانہ کرلینا چاہئے۔ یہی اصل چیز ہے۔انہی  نیک اعمال کے کرنے کی قرآن تائید کرتا ہے اور رسول اللہﷺ نے بھی ان نیک اعمال کے کرنے  کے طریقے بتائے ہیں۔ آخرت کے معاملے میں پچھلوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ بعد میں ثواب بلٹی کریں گے تو بخشا جاؤں گا ۔ اس لئے کہ ایک تو بعد والے اس کے ورثاء  یہ ثواب پہنچانے کے پابند نہیں اور نہ ہی ان پر یہ فرض ہے اور پھر اکثر ایسے ہوتا ہے جو اعمال بعد میں کئے جاتے ہیں  وہ ریا کاری ‘ دکھلاوے  اور برادری کی واہ واہ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ظاہر ہے لوگوں کو دکھلاوے کے لئے یاان کی واہ واہ حاصل کرنے کےلئے جو اعمال کئے جاتےہیں ان کا میت کو ثواب پہنچنے کا کوئی بھی قائل نہیں۔ بات بڑی سیدھی اور صاف ہے جو ہمارے اکثر بھائیوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ صدقہ و خیرات صرف غریبوں کا حق ہے اگر کوئی رشتہ دار بھی اس کا مستحق ہے تو وہ بھی کہہ سکتا ہے۔ اگر مولوی صدقے کا حقدار ہے تو اسے بھی دینا چاہئے لیکن اصل شرط استحقاق (مستحق ہونا) ہے۔ بد قسمتی سے یہاں برطانیہ میں بعض مذہبی پیشہ وروں نے اس مسئلے کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے اس لئے وی طرح طرح کی تاویلیں کرکے مسئلے کو پیچیدہ بنادیتےہیں ۔ لیکن خود قرآن نے اس مسئلے کو پوری طرح واضح کردیا ہے ۔دیکھئے سورہ التوبہ آیت نمبر ۵ جس کا ترجمہ یہ ہے بے شک صدقات فقیروں کے لئے اور مساکین کے لئے اور صدقات جمع کرنے والوں کے لئے اور ان کی تالیف کےلئے جو نئے مسلمان ہوئے اورگردن آزاد کرانے کےلئے اور ان کے لئے جن پر قرض یا تاوان ہے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کےلئے ہیں۔

اب اس کے بعد صدقات و خیرات کا مال رشتہ داروں یا دوستوں کو بلا کر کھلانا یہ قرآن مخالفت نہیں تو اور کیا ہے؟

             اب اس بارے میں چند علماء کے فیصلے بھی ملاحظہ فرمالیں جو ان لوگوں کے نزدیک سند ہیں جو اس طرح کی رسموں کو رواج دینے میں پیش پیش ہیں:

(۱)شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اپنی کتاب  ’’ سفر السعادت ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ عادت نبوی نبود کہ برائے میت درغیر وقت نماز جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گورو نہ غیر آن و این مجموع بدعت است ومکروہ نعم تعزیت اہل میت و تسلیہ و صبر فرمودن سنت و مستحب است اما ایں اجتماع مخصوص روز سوم و ارتکاب  تکلفات دیگر و صرف اموال بے وصیت از حق یتامی بدعت و حرام است‘‘

’’ یہ عادت نبوی ﷺ نہ تھی کہ نماز کے علاوہ وہ کسی وقت جمع ہوکر قرآن پڑھتے یا قرآن ختم کرتے ہوں  نہ قبر کے پاس نہ کسی دوسری جگہ اور یہ سب بدعات ہیں اور مکروہ‘ ہاں تعزیت کرنا یا ورثاء کو صبروتسلی کی تلقین کرنا یہ سنت ومستحب ہے لیکن خاص طور پر تیسرے دن جمع ہو کر (کھانے  وغیرہ ) میں کئی تکلفات کرنا اور یتیموں کامال وصیت کے بغیر خرچ کرنا یہ بدعت اور حرام ہے۔‘‘

شیخ صاحب نے تین باتیں واضح فرمادی ہیں۔

اول: یہ کہ خاص تیسرے دن کو کسی غرض کے لئے جمع ہونا یہ بدعت ہے۔

دوسرا: تکلفات کرنا جن میں ایک کھانے کا تکلف بھی شامل ہے کہ اس دن پر تکلف کھانے خاص طورپر تیار کئے جاتےہیں اور جہلا تو کھانے کی قسموں کی ایک مخصوص تعداد پوری کرتےہیں۔

تیسرا: یہ کہ اگر یہ رسم ان لوگوں کے گھر ادا کی جائے جو یتیم رہ گئے ہیں یا بیوہ ہے تو پھر بالکل حرام ہے۔

اب یہ بدعت یا حرام کا فتویٰ ہمارا نہیں بلکہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا ہے جن کاتمام مکاتب فکر کے لوگ احترام کرتےہیں۔

(۱)حضرت ملا علی قاری حنفی ؒ مشکوٰۃ کے حاشیہ مرقاۃ میں اس حدیث کے تحت جس میں رسول اکرمﷺ نے حضرت جعفر کی وفات پرصحابہ کرامؓ سے کہاتھا کہ جعفرکے گھر والوں کے لئے کھانے کا انتظام کرو(کیونکہ وہ صدمے سے دوچارہیں) لکھتےہیں’’اور گھروالوں کا میت کے سلسلے میں کھانا تیار کرنا تا کہ لوگوں کو اکٹھا کرکے کھلایا جائے یہ بدعت ہے‘ مکروہ ہے اور امام غزالی نے ایسا کھانا کھانا مکروہ قرار دیا ہے اور اگر یتیم یا غیر  حاضر آدمی کا مال ہو تو پھر تمام کے نزدیک حرام ہے۔‘‘

(۳)مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی ؒ فرماتے ہیں ’’ خاص طور پر تیسرا دن خاص کرنا اور پھر اسے ضروری قرار دینا یہ شریعت محمدیہ میں ثابت نہیں۔‘‘

بعض لوگ تیسرے دن کی تخصیص پر یہ عجیب دلیل پیش کرتےہیں کہ موت کے بعد قبر میں وحشت کودور کرنے اور سوال و جواب میں وہ ثواب کا محتاج ہوتا ہے اور یہ زمانہ قریب ہوتا ہے کہ اسے کچھ پہنچایا جائے۔ یہ اس لئے غلط ہےکہ اگر کھانے سے اس کی نجات ہوسکتی ہے تو پھر تین دن کا بھی انتظار نہیں کرناچاہئے بلکہ پہلے اور دوسرے دن ہی یہ عمل کر لینا چاہئے جب بیچارے کی تین دن خوب مرمت ہوچکی تو اب تو اب کیا فائدہ۔

بہرحال یہ تیسرا ہو یا چالیسواں یا برسی ہو سب کی حیثیت برابر ہے محض رسمیں ہیں۔ دین سے ان کاکوئی تعلق نہیں۔

چراغ جلانا

قبروں پر چراغ جلانا ‘عرس کرنا یا نذر و نیاز وہاں جا کر دینا سب ہی غیر  مشروع کام ہیں۔ قرآن وحدیث کے خلاف ہیں۔ صحابہ کرامؓ یا ائمہ دینؒ سے ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتےہیں کہ آپﷺ نے فرمایا اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ بنالو اور میری قبر کو عید کی طرح  نہ بنالینا اور مجھ پر درود بھیجو او ر جس جگہ سے بھی تم درود بھیجو گے میرے پاس پہنچ جائے گا۔(نسائی)

یہاں عید سے مراد خوشی کا اجتماع یا میلہ ہے جس طرح لوگ عید کے دن اظہار زینت کرتے ہیں ’قبروں پر ایسے جائز نہیں اور آج کل عرسوں پر ایسے یہ عید اور میلے کی کیفیت ہوتی ہے بلکہ عوام تو ان کو کہتے ہی میلہ ہیں یعنی عیدوجشن ۔ قبروں پرچراغ جلانے سے بھی آپ نے منع فرمایا۔

قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی اپنی تفسیر مظہری ہیں لکھتے ہیں:

ترجمہ: جہلا جو کام اولیاء یا شہدا ءکی قبروں  پر کرتےہیں ان میں سے یہ کام جائز نہیں۔

سجدہ کرنا’ طواف کرنا’دیئے جلانا ’قبر پر مسجد بنانا’سال کے سال عید کی طرح اس پر جمع ہونا جسے لوگ عرس کہتےہیں۔

اپنی کتاب ارشاد الطالبین ص ۲۲ میں فرماتےہیں:

’’ حضور ﷺ نے ان لوگوں پر لعنت کی جو قبروں پر چراغ جلاتے یا سجدہ کرتے ہیں۔‘‘

        نذونیاز کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی کا فیصلہ ملاحظہ فرمایئے ۔ وہ مکتوبات شریف نمبر ۴۱ جلد ۳ صفحہ ۷۱ میں لکھتےہیں۔

ترجمہ: حیوانات کو مشائخ کے نام کی جو منت مانتے ہیں اور ان کی قبروں پر جا کر ان حیوانات کو ذبح کرتےہیں فقہی روایات میں یہ چیزیں بھی شرک میں داخل ہیں اور فقہاء نے اس بات میں سختی سے منع کیا ہے۔

ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ قرآن وحدیث اور بزرگان دین کے فیصلے آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ انصاف سے فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص281

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ