سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(213) دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا

  • 13734
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2798

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے:

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں سے جب کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو پھر وہ سایہ جاتا رہے (یعنی اس پر دھوپ آ جائے) اور اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سائے میں ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ (وہاں سے) اٹھ کھڑا ہو (اور بالکل سایہ میں جا بیٹھے یا بالکل دھوپ میں) [ابوداود] اور شرح السنہ میں یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جو شخص سایہ میں بیٹھا ہو پھر وہ سایہ جاتا رہا تو وہاں سے اٹھ کھڑا ہو اس لئے کہ کچھ سایہ میں اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا شیطان کا کام ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح جلد دوم ص۴۵۷ ح۴۷۲۵، ۴۷۲۶)

محترم! دھوپ اور سایہ میں نماز کے متعلق قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں اس کے متعلق مفصل وضاحت کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشکوٰۃ والی روایت سنن ابی داود (کتاب الادب، باب ۱۵ ح۴۸۲۱) مسند الحمیدی (بتحقیقی: ۱۱۴۵) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۲۳۶/۳، ۲۳۷) میں محمد بن المنکدر قال: حدثنی من سمع اباھریرۃ‘‘ کی سند سے موجود ہے۔ اس میں حدثنی کا فاعل ’’من سمع‘‘ مجہول ہے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔

منذری نے کہا: ’’وتابعیہ مجھول‘‘ اور اس کا (راوی) تابعی مجہول ہے۔ (الترغیب و التہیب ۵۹/۴)

تنبیہ:

اس مجہول تابعی کا ذکر مسند احمد (۳۸۳/۲ ح۸۹۷۶) وغیرہ سے گر گیا ہے۔

شرح السنۃ للبغوی (۳۰۱/۱۲ ح۳۳۳۵) والی روایت موقوف اور منقطع ہے اور اس میں محمد بن المنکدر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس حدیث میں مجہول واسطہ گر گیا ہے۔

شرح السنہ والی روایت مصنف عبدالرزاق میں بھی موجود ہے۔ (ج۱۱ ص۲۳، ۲۴ ح۱۹۷۹۹)

صاحب مصنف: عبدالرزاق الصنعانی رحمہ اللہ مدلس تھے لہٰذا جب تک ان کی بیان کردہ سند میں ان کے سماع کی تصریح نہ ہو اس سے استدلال جائز نہیں ہے۔ امام عبدالرزاق کی تدلیس کے لئے دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی (ج۳ ص۱۱۰، ۱۱۱ و سندہ صحیح)

عبدالرزاق نے ضعیف سند کے ساتھ محمد بن المنکدر سے نقل کیا ہے کہ وہ دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا جائز سمجھتے تھے۔ (ح ۱۹۸۰۱ عن اسماعیل بن ابراہیم بن ابان؟)

امام عبدالرزاق نے ’’عن معمر عن قتادۃ‘‘ کی سند سے نقل کیا ہے کہ قتادہ (تابعی) دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا مکروہ سمجھتے تھے۔ (ح۱۹۸۰۰)

اس کی سند تدلیس عبدالرزاق کی وجہ سے ضعیف ہے۔

مجہول تابعی والی مرفوع روایت کے دو شاہدوں کی تحقیق درج ذیل ہے:

۱:             قتادۃ عن کثیر (بن ابی کثیر البصری) عن ابی عیاض (عمرو بن الاسودالعنسی) عنرجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ……… الخ (مسند احمد ۴۱۳/۳، ۴۱۴ ح۱۵۴۲۱)

اس میں قتادہ راوی مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ابوبکر الشافعی کی ’’حدیثہ‘‘ (قلمی ۲/۴) سے نقل کیا ہے کہ اسے شعبہ نے قتادہ سے بیان کیا ہے۔ (السلسلۃ الصحیحہ: ۸۳۸)

شیخ صاحب نے شعبہ تک سند بیان نہیں کی لہٰذا یہ حوالہ بھی مردود ہے۔ اس کے برعکس مسدد بن مسرہد نے یحییٰ (بن سعیدد القطان) عن شعبہ کی سند سے اس روایت کو مرسلاً بیان کیا ہے۔ دیکھئے اتحاف المہرۃ (۱۶/۲ ص۷۶۳ ح۲۱۲۱۵)

معلوم ہوا کہ متصل سند میں تدلیس کی وجہ سے گڑبڑ ہے۔ تدلیس والی یہی روایت مستدرک الحاکم (۲۷۱/۴ ح۷۷۱۰) مں ’’عن ابی ھریرۃ‘‘ کی سند سے موجود ہے۔ اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (قتادہ کی ایک مرسل روایت کے لئے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۴۹۱/۸ ح۲۵۹۴۹)

۲:            ’’ابو المنیب عن ابن بریدة عن ابیه ان النبی صلی الله علیه وسلم نهی ان یقعد بین الظل والشمس‘‘ بریدہ (بن الحصیب رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور چھاؤں مں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن ماجہ: ۳۷۲۲، ابن ابی شیبہ فی المصنف ۴۹۱/۸ ح۲۵۹۵۴، المستدرک ۲۷۲/۴ ح۷۷۱۴)

اس کی سند حسن ہے۔ (تسہیل الحاجۃ، قلمی ص۲۶۱)

اسے بوصیری نے حسن قرار دیا ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’مجلس الشیطان‘‘ یا ’’مقعدہ الشیطان‘‘ کے الفاظ کے بغیر یہ روایت حسن ہے لہٰذا سنن ابی داود والی روایت بھی اس سے حسن بن جاتی ہے۔

عکرمہ تابعی فرماتے ہیں کہ جو شخص دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھتا ہے تو ایسا بیٹھنا شیطان کا بیٹھناہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۴۸۹۱/۸ ح۲۵۹۵۳ و سندہ صحیح)

عبید بن عمیر (تابعی) نے فرمایا: دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے۔ (ابن ابی شیبہ: ۲۵۹۵۲ و سندہ صحیح)

لهٰذا ایسے بیٹھنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص493

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ