سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) لولاک ما خلقت الأفلاک

  • 13528
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 3483

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ بات صحیح ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا نہ کرتا۔ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض الناس یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ (اے نبی!) اگر آپ نے ہونے تو میں آسمان (و زمین) پیدا نہ کرتا۔

اس جملے کا کوئی ثبوت حدیث کی کسی کتاب میں باسند موجود نہیں ہے۔ اس بے سند جملے کو شیخ حسن بن محمد الصغانی (متوفی ۶۵۰ھ) نے ’’موضوع‘‘ یعنی من گھڑت قرار دیا۔ دیکھئے موضوعات الصغانی (۷۸) و تذکرۃ الموضوعات (ص۸۶) لمحمد طاہر الفتنی الہندی (متوفی ۹۸۶ھ) الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانی (ص۳۲۶) الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لملا علی القاری الحنفی (۳۸۵) کشف الخفاء للعجلونی (۲۱۲۳) اور الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لعبد الحئی اللکنوی (ص۴۰)

تنبیہ:

عجلونی اور ملا علی قاری نے حسن الصغانی سے اس جملے کا ’’موضوع‘‘ ہونا نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’معناہ صحیح‘‘ یعنی اس (موضوع روایت کا) معنی صحیح ہے۔!

عرض ہے کہ جب یہ روایت باطل، من گھڑت اور اللہ و رسول پر افتراء ہے تو کس دلیل سے اس کے معنی کو صحیح کہا گیا ہے؟

ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ ’’أتاني جبریل فقال: یا محمد! لولاک ما خلقت الجنة و لولاک ما خلقت النار‘‘ میرے پاس جبریل آئے تو کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آپ نے ہوتے تو میں جنت پیدا نہ کرتا اور اگر آپ نہ ہوتے تو میں (جہنم کی) آگ پیدا نہ کرتا۔ (الاسرار المرفوعۃ ص۲۸۸)

یہ روایت کنز العمال (۴۳۱/۱۱ ح۳۲۰۲۵) اور کشف الخفاء (۴۵/۱ ح۹۱) میں بحوالہ دیلمی عن ابن عباس (ابن عمر) منقول ہے۔ دیلمی (متوفی ۵۰۹ھ) کی کتاب فردوس الاخبار میں یہ روایت بلاسند و بلا حوالہ مذکور ہے۔ (۳۳۸/۵ ح۸۰۹۵)

ملوم ہوا کہ یہ روایت بھی بے سند و بے حوالہ ہونے کی وجہ سے موضوع و مردود ہے۔

محدث احمد بن محمد بن ہارون بن یزید الخلال (متوفی ۳۱۱ھ) نے بغیر کسی سند و حوالے کے نقل کیا ہے کہ ’’یا محمد! لولاک ما خلقت آدم‘‘

اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آپ نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا۔ (السنۃ ص۲۳۷ ح۲۷۳)

یہ روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع و مردود ہے۔

ملا علی قاری نے ابن عسااکر سے نقل کیا ہے کہ ’’لولاک ما خلقت الدنیا‘‘

اگر آپ نہ ہوتے تو دنیا پیدا نہ کی جاتی یا میں دنیا پیدا نہ کرتا۔ (الاسرار المرفوعۃ ص۲۸۸)

ابن عساکر والی روایت تاریخ دمشق (۲۹۶/۳، ۲۹۷) کتاب الموضوعات لابن الجوزی (۲۸۸/۱، ۲۸۹) اور اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی (۲۷۲/۱) میں موجود ہے۔ ابن جوزی نے کہا: ’’هذا حدیث موضوع لا شک فیه، و في إسناده مجهولان و ضعفاء فمن الضعفاء أبو السکین و إبراهیم بن الیسع، قال الدارقطني، أبو السکین ضعیف، و إبراهیم و یحیی البصري متروکان، قال أحمد بن الحنبل: خرقت أحادیث یحی البصري و قال الفلاس: کان کذابًا یحدث أحادیث موضوعة و قال الدارقطني، متروک‘‘ (کتاب الموضوعات نسخہ محققہ ج۲ ص۱۹ ح۵۴۹، نسخہ قدیم ۲۸۹/۱، ۲۹۰)

یعنی (ابن جوزی کے نزدیک) یہ حدیث بلاشک و شبہ موضوع ہے اور اس کے تین راوی ابوالسکین، ابراہیم بن الیسع اور یحییٰ البصری مجروح ہیں۔ ملخضا

سیوطی نے کہا: ’’موضوع‘‘ یہ روایت موضوع ہے۔ (اللالی المصنوعۃ ۲۷۲/۱)

اس کا راوی خلیل بن مرہ بھی ضعیف ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۱۷۵۷)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ولا لا محمد ما خلقتک‘‘ (اے آدم!) اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔ (المستدرک للحاکم ۶۱۵/۲ ح۴۲۲۸ وقال: ’’ھذا حدیث صحیح الإسناد‘‘)

اس روایت کو اگرچہ حاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے لیکن یہ روایت کئی وجہ سے موضوع ہے:

۱:    حافظ ذہبی نے کہا: ’’بل موضوع و عبدالرحمن واہ‘‘ بلکہ یہ روایت موضوع ہے اور عبدالرحمن (بن زید بن اسلم) سخت کمزور راوی ہے۔ (تلخیص المستدرک ج۲ ص۶۷۲)

۲:    عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں خود حاکم لکھتے ہیں: ’’روی عن أبیه أحادیث موضوعة لا یخفی علی من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فیها علیه‘ اس نے اپنے ابا (زید بن اسلم) سے موضوع حدیثیں بیان کی ہیں۔ حدیث کا علم جاننے والوں پر یہ مخفی نہیں ہے کہ ان موضوع روایات کی وجہ یہ شخص بذاتِ خود ہے۔  (المدخل الی الصحیح ص۱۵۴ رقم: ۹۷)

یعنی اس نے اپنے باپ پر جھوٹ بولتے ہوئے حدیثیں گھڑی ہیں۔

تنبیہ:

مستدرک والی روایت بھی عبدالرحمن بن زید بن اسلم۔ بشرطِ صحت۔ اپنے باپ ہی سے بیان کرتا ہے۔

۳:   عبداللہ بن مسلم الفہری نامعلوم (مجہول) ہے یا وہ عبداللہ بن مسلم بن رشید (مشہور کذاب) ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (ج۳ ص۳۵۹، ۳۶۰ طبعہ جدیدہ ج۴ ص۱۶۱، ۱۶۲)

ملوم ہوا کہ اس موضوع روایت کو حاکم کا ’’صحیح الإسناد‘‘ کہنا ان کی غلطی ہے۔

مستدرک کی ایک دوسری روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’فلولا محمد ما خلقت آدم ولو لا محمد ما خلقت الجنة و لا النار‘‘

اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ ہوتے تو میں جنت اور جہنم پیدا نہ کرتا۔ (۶۱۵/۲ ح۴۲۲۷ وقال: ھذا حدیث صحیح الاسناد)

یہ روایت کئی وجہ سے موضوع اور مردود ہے:

۱:    حافظ ذہبی نے کہا: ’’أظنہ موضوعا علی سعید‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت سعید (بن ابی عروبہ) کی طرف مکذوبا منسوب کی گئی ہے۔ (تلخیص المستدرک ۶۷۱/۲)

۲:   عمرو بن اوس مجہول ہے۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۲۴۶/۳ ولسان المیزان ۳۵۴/۴)

۳:   سعید بن ابی عروبہ مختلط ہیں۔

۴:   سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں۔ اگر یہ روایت ان سے ثابت بھی ہوی تو مردود تھی۔

۵:   طبقات ابی الشیخ الاصبہانی (۲۸۷/۳ ح۴۹۴) میں جندل بن والق کی سند سے یہ روایت ’’ثنا محمد بن عمر المحاربي عن سعید بن أوس الأنصاري عن سعید بن أبي عروبة……‘‘ الخ کی سند سے مروی ہے۔ اس میں محمد بن عمر مجہول ہے جس نے عمرو بن اوس کو سعید بن اوس سے بدل دیا ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

لولاک ما خلقت الأفلاک اور اس مفہوم کی ساری روایات موضوع اور باطل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون﴾ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ (الذاریت: ۵۶)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص49

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ