سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(597) زبردستی داڑھی منڈوانے والی کی سزا

  • 13339
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1080

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بندہ  مو ضع پیا ل  تحصیل و ضلع  قصور کا ر ہا ئشی ہے اور  شہد کی تجارت کا کا رو با ر  کرتا ہے کسی شخص کا ۔شہد لگا ہوا چوری  کر لیا گیا اس شخص نے میرے  اوپر بہتان  اور الزا م  لگا دیا  کہ  شہد تو نے چوری  سے اتار لیا  ہے حا لا نکہ  میں نے  حقیقتاً شہد  چو ری سے نہ اتارا تھا  میں نے  اپنے  طور پر اور  پنچائتی  طور پر اپنی بے گنا ہی کا ثبوت  دینے کی پیش کش کی مگر  یہ شخص  نہ ما نا  اس نے  مجھے گندی فحش گالیاں دیں ۔اور میرے اوپر تشدد کیا اس نے زبردستی  میری  داڑھی بھی  منڈھ ڈالی بلیڈ  والے استرے  سے جو  کہ ویسے  بھی نا پاک  تھا  اس طرح  سے اس شخص نے سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دھجیاں بکھیریں  اور تو ہین  کی ساتھ ہی  مجھے دھمکیاں  دیں  کہ تیرے  ساتھ ابھی کم سلوک کیا گیا ہے آئندہ ایسی غلطی کی تو کسی اور طریقہ سے سزا  دیں گے ۔

میں نے اس واقعہ کی اطلا ع مقامی  پو لیس کو دے دی پو لیس نے اس شخص کے خلا ف کا رو ائی  کر کے پرچہ درج کردیا  ملزم اب ضمانت  پر رہا ہو چکا  ہے عدا لت میں مقد مہ  کی سما عت  جا ری ہے  اور کیس سماعت  ہو نے پر کیا سزا مجسٹریٹ  صاحب دیں گے مجھے معلوم  نہیں ۔

برا ہ مہر با نی  داڑھی منڈنے  سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تو ہین  کر نے والے کے با رے میں شرعی فتویٰ دیں کہ اسلام  کی روسے ایسے شخص کی کیا سزا مقرر ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بظاہر واقعات سے معلوم ہوتا  ہے کہ مشا را لیہ  شخص  نے آپ  کے ساتھ ظلم و زیادتی کی یہاں  تک کہ داڑھی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اہانت  کا مر تکب  ہوا جرم  ہذا مستو جب تعزیر  ہے ۔  مجا ز افسر  کے لیے  ضروری  ہے کہ اس ظا لم کو منا سب حا ل ضرور  سزا  دے جو با عث  عبرت ہو تا کہ آئندہ  اسے خبیث  باطن  کے اظہار کی جرا ت  نہ ہو سکے ۔

"مشکوۃ "با ب الامر  بالمعروف  میں ہے ۔اگر کسی قوم میں کوئی  گناہ  ہو تا  ہو اور وہ قوم  ظالم  کا ہا تھ پکڑنے  پر قادر  ہو پھر وہ نہ پکڑے  تو اللہ  کی طرف سے سب پر عذاب  آئے گا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص872

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ