سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(420) بچوں کی تربیت کی خاطر پیدائش میں وقفہ کرنا

  • 13160
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1089

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اپنے ذاتی مسائل و وسائل  کو سامنے رکھتے  ہوئے  وقت کے تقاضوں  کے مطابق موجود ہ بچوں کی صحیح طور پر تعلیم  و تربیت کی خاطر کیا مزید بچے پیدا نہ کرنے کی گنجائش  ہے ؟ بے شک رزق اللہ دیتا ہے اور بھوکوں کو ئی نہیں مرتا مگر یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ کم وسائل والے  آدمی  کی کثیر اولا د منا سب تعلیم  و تربیت  کی کمی  یا نہ  ہونے کی وجہ  سے خود  بھی ناگفتہ  بہ حالت  میں  ہوتے  ہیں کیوں کہ حالات  کے  پیش  نظر  عمومی معیار  زندگی  بدل  گیا ہے جو چیزیں  کل کلاں  عیش  وعشرت  کا سامان  تھیں  آج ضروریات  زندگی  بن چکی ہیں ان کانکار  کرنا مشکل امر ہے  کیونکہ انسان کوانسانوں کی طرح رہنے کاحق  ہے مزید  یہ کہ آسودگی  میں انسان دین  ومذہب  پر بھی توجہ دیتا ہے کہ جہالت  وافلاس  نے منکر انسانوں کو شرک و گمراہی  میں دھکیلا ہوا ہے بے شک  اس کے  مقا بلہ  میں کثرت  دولت  بری چیز  ہے جو عیاشی  اور تکبر کو جنم دے کر انسانوں  کو گمرا ہ کرتی  ہے مگر سوال  کا مدعا اوسط  درجہ  کی زندگی  کے حصول  کے متعلق  ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح  کی حیلہ  سازی دراصل  عقیدہ تو حید میں ضعف  و کمزوری کی مظہر ہے اللہ رب العالمین  صرف انسان کا روزی رساں  نہیں بلکہ ہر ذی روح اور متنفس  کی روزی  کا ذمہ اس نے  پہلے  روزے  سے لیا  ہوا ہے ہر جنس کو اس کی طبیعت کے مطابق  رزق مہیا  کر کے اپنے  رزاق ہونے کا ثبوت ہر آن دے رہا ہے ۔

﴿ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّ‌زّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ ﴿٥٨﴾... سورة الذاريات

لیکن کمزور  فطرت  انسان  ہے کہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات  سماتی نہیں محدود وسائل  پر عارضی  تسلط کی وجہ سے اپنے کو رزاق سمجھ بیٹھا ہے کمی اولاد کی صورت میں صحیح تعلیم  وتربیت  کا دعویٰ محض ایک مفروضہ ہے جس کا حقیقت  حال سے کو ئی تعلق نہیں لیل و نہار ہمارے  مشاہدے  میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ تعلیم  وتر بیت  سے عاری ۔

شریعت اسلامیہ میں تکثیر  اولاد میں ترغیب  کے نصوص سے یہ بات عیاں ہے کہ اسلام میں تحدیدنسل کا کو ئی تصورنہیں راوی کا بیان بصرہ میں حجاج کی آمد75(ہجری )کے وقت حضرت انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حقیقی بچے ایک سوبیس سے اوپر فوت ہوچکے تھے (صحيح البخاري كتاب الصوم باب من زار قوما .....(١٩٨٢)صحيح مسلم كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل انس رضي الله عنه (٦٣٧٦) (باب من زار قوما فلم يفطر عندهم)

اور صحیح مسلم میں اسحاق  بن ابی طلحہ کی روایت میں ہے زندہ اولا د و احفاد سو قریب تھے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بایں  الفاظ انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے  دعا کی تھی ۔

«اللهم ارزقه مالا وولدا وبارك له» صحيح البخاري كتاب الصوم باب من زار قوما .....(١٩٨٢)صحيح مسلم كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل انس رضي الله عنه (٦٣٧٦)

اس بناء پر ان کا باغ سال میں دو دفعہ ثمر آور ہوتا تھا۔ در اصل جب سےہم میں فکر جہاد مفقود ہوئی ہے۔ اس وقت سے ہم کمی اولاد کی برکات کے وسوسوں میں مبتلا ہوگئے۔ چاہیے تو یہ  تھا کہ جذبہ سلیمانی  علیہ السلام  کو لے کر مسابقت کی راہ  اختیار کرتے لیکن ہماری ترقی معکوس ہے رب العزت سب کو سمجھ عطا فرمائے۔پھر آسودگی کا دین ومذہب کی طرف توجہ کا باعث بننا محض خوش فہمی ہے۔تاریخ اوائل اس کی نفی کرتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص722

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ