سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(419) جانوروں کو خصی کرنے کا شرعی حکم

  • 13159
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1419

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیل سانڈ بکرے وغیرہ جو جانور خصی کئے  جا تے ہیں ان کی کیا دلیل ہے مسلم وغیرمسلم  دونوں خصی کرسکتے ہیں ؟کوئی مسلمان بھی یہ کا  م کرسکتا ہے وضاحت  فرمائیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جانوروں کوخصی کرنے کے بارے میں اہل علم  کے دو متضاد اقوال ہیں ۔ایک گروہ منع کا قا ئل ہے جب کہ دوسرا گروہ عملی جواز کاقائل ہے اول الذکر طائفہ  کے دلائل  بالا ختصار حسب ذیل ہیں ۔

(1)قرآن مجید میں شیطان کا قول ہے :

﴿وَلَءامُرَ‌نَّهُم فَلَيُغَيِّرُ‌نَّ خَلقَ اللَّهِ...١١٩﴾... سورةالنساء

"اور (یہ بھی )کہتا رہوں گا کہ وہ اللہ کی بنائی صورتوں کو بدلتے رہیں ۔"

زیر آیت ہذا امام بغوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :"مفسرین کی ایک جماعت بشمول عکرمہ کاکہنا ہے مراد اس سے خصی کرنا گوندنا اور کان کاٹنا ہے اور بعض اہل علم نے خصی کرنے کو حرام قرار دیاہے ۔"(معالم التنذل1/482)

نیز حافظ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :"ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نزدیک  اس سے مقصود جانوروں کاخصی کرنا ہے۔"یہی رائے  درج ذیل  اسلاف کی ہے ابن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعیدبن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عکرمہ ابن عباس ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )قتادہ ابواصلح رحمۃ اللہ علیہ اور ثوری  رحمۃ اللہ علیہ ۔(1/612)

(2)حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دم گھونٹنے اور جانوروں کوخصی کرنا سختی سے منع فرمایا ہے ۔(رواہ البذار)

امام شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  نےاس پر صحت کاحکم لگایا ہے ۔

(3)ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ماثور ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اونٹوں گایوں  بھیڑبکریوں  اور گھوڑوں  کو خصی  کرنے سے منع فرمایا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں ۔افزائش نسل کا دارومداراسی پر ہے کو ئی ۔بھی مادہ  نر کے بغیر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتی ۔(شرح معانی الاثار)

(4)"مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  میں ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ہے ۔میں  ہے پھر دلیل میں مذکورآیت پیش کی اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےبھی عدم جواز پراپنی  مروی روایت اور مذکورہ بالاآیت سے استدلال کیا ہے ۔ان دلائل کے جواب میں ثانی الذ کر فریق کا کہنا ہے کہ ۔﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾کی تفسیر میں جا نوروں  کو خصی کرنے کی بات کسی صحیح یاضعیف  روایت سے مرفوعاً ثابت نہیں اور جہاں تک سلف کی ایک جماعت کا تعلق ہے کہ اس نے آیت ﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾سے خصی کرنا سمجھا ہے جب کہ ان کے بالمقابل دوسری جما عت نے﴿خلق اللہ﴾سے اللہ کا دین مراد لیا ہے چنانچہ امام بغوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسن بصری  رحمۃ اللہ علیہ  مجاہد قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ اور ضحاک( رحمۃ اللہ علیہ )نےاس کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے اور نظیر میں دوسری آیت﴿لاتبديل لخلق الله﴾پیش کی ہے اور ﴿خلق اللہ﴾کامعنی دین اللہ بتایا ہے یعنی حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا نا اور حافظ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تفسیر میں قریباًایسی ہی وضاحت  فرمائی ہے جب آیت کی تفسیر میں دونوں قسم کے اقوال ہیں تو فیصلہ  حتمی  اور یقینی  نہ ہوا اور اگر سنت ثابتہ  سے کو ئی بات ثابت ہو تو انکار کی گنجائش نہ تھی  جس کا وجود یہاں ناپید ہے اور طحاوی کی روایت کمزور ناقابل  استدلال ہے اس میں راوی عبدا للہ  بن نافع ہے محدثین  کے نزدیک ضعیف ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت  میں ایک راوی  مجہول  ہے پھر ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر موقوف ہے مرفوع نہیں اگرچہ مسند  بزار کی روایت جس کوامام شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح قرار دیا ہے مطلقاًممانعت  پر دال ہے خواه(ماكول اللحم)جا نور ہویا (غيرماكول اللحم)لیکن دیگرمرویات مثلاً ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابو رافع  رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو درداء( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )جواز پرمصرح ہیں حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے فربہ سینگوں والے سفید خصی  کردہ دبنے خریدتے۔(سنن ابن ماجہ )

ابورافع  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسفید خصی کردہ دنبوں كی قربانی کی ۔

(مسند احمد  رحمۃ اللہ علیہ مسند اسحاق ۔من راھویہ اور معجم طبرانی)

جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسفید  بڑے سینگوں والے خصی کردہ دنبے لائے اور ان میں  ایک کو ذبح  کیا فرمایا :

«بسم اللہ اللہ اکبر اللهم عن محمد وآل محمد» ( مسند ابن ابي شيبه وغيره)

ان میں سے بعض طرق میں اگرچہ عبد اللہ بن محمد  بن عقیل  کی وجہ  سے کچھ  کلا م ہے لیکن  علما ء  کی ایک  جماعت نے ان پر اعتماد کا اظہار  کیا ہے جیسے امام محمد اسحاق بن راھویہ  حمیدی  امام بخاری  ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عدی (4) تہذیب  میزان اورخلاصہ  میں ان ائمہ  سے اس کی تو ثیق  منقول ہے علاوہ ازیں  عبد اللہ  بن محمد  بن عقیل کی روایت کے اور بھی شواہد  ہیں جواس روایت کو تقویت  پہنچاتے ہیں ملا حظہ ہو (فتاوی عظیم آبادی )

نیز بعض علماءنے مختلف  احادیث  میں تطبیق  یوں دی ہے کہ جن جانوروں کا گوشت  کھا یا  جا تا ہو گوشت  کو مزید اچھا بنانے کے لیے ان کو خصی کرنا جائز ہے اور جب جانوروں کا کھا نا قطعاً ممنوع ہے ان کو خصی کرنا بھی ناجائز ہے متقدمین  میں سے طاؤس اور عطا ء وغیرہ اور متاخرین  کی اکثریت  اسی بات کی قائل نظرآتی  ہے ۔

فیصلہ:

لہذا ترجیح  اسی بات کو ہے کہ (ماكول اللحم)جانوروں کو بوقت ضرورت خصی کرنا جائز ہے اور فاعل کے لیے مسلما ن ہونا ضروری نہیں کیونکہ عمل ہذا عبادات  کی قبیل سے نہیں جس میں اسلام شرط  ہواس لیے  مسلم وغیرہ مسلم  سب برابر ہیں بالخصوص  ایک  مسلمان کے لیے عمل خصاء کرنے میں کو ئی ممانعت  نہیں  اصلاً جواز  ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص720

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ