سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(164) شیخ البانی کے بارے میں رائے

  • 12644
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1102

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک عالم ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا ہے لیکن وہ ان مشائخ کو گالیاں دیتے ہیں، جن کا قول اس کی بات کے خلاف ہو خصوصاً رمضان میں تو وہ ہر رات علامہ البانی سے ڈراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمام علما و فضلا کی علامہ البانی کے بارے میں یہی رائے ہے کہ یہ شخص محض تاجر کتب ہے یعنی عالم نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ آپ کی علامہ البانی کے بارے میں کیا رائے ہے تاکہ آپ کی رائے کے بارے میں ہم اس شخص کو اور اس کے درس میں شریک ہونے والے لوگوں کو بھی بتا سکیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ ناصر الدین البانی ہمارے ان خواص اور ثقہ بھائیوں میں سے ہیں، جو علم و فضل میں معروف اور تصحیح و تضعیف کے اعتبار سے علم حدیث کے ساتھ خصوصی دلچسپی رکھنے والوں میں سے ہیں لیکن وہ معصوم نہیں ہیں۔ بسا اوقات کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینے میں ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے لیکن انہیں گالی دینا یا ان کی مذمت کرنا یا ان کی غیبت کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ان کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیت و عمل کی مزید خوبیوں سے نوازے۔ جس شخص کو دلیل کے ساتھ ان کی کسی واضح غلطی کے بارے میں علم ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ان کی خیر خواہی کرتے ہوئے انہیں خط لکھ کر مطلع کرے تاکہ رسول اللہﷺ کے اس فرمان پر عمل ہو جائے:

(الدين االنصحيه)(صحيح مسلم الايمان باب بيان ان الدين النصحية حديث:55)

’’دین ہمدری ک اور خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘

نیز آپﷺ کے اس فرمان پر عمل ہو جائے:

("‏المسلم أخو المسلم، لا يظلمه، ولايسلمه) (صحیح البخاری باب لایظلم المسلم المسلم ولایسلمه حديث:2442وصحيح مسلم البر والصلة باب تحريم الظلم ح:2580)

’’مسلمان مسلمان  کا بھائی ہے لہذا وہ اس پر ظلم نہ کرے نہ ظلم کے لیے اسے کسی اورکے سپرد کرے۔‘‘

جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

( بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ‏.‏)(صحيح البخاري الايمان باب قول النبي ﷺ الدین النصحيه حديث:56)

’’میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔‘‘

یہ بات حتمی ہے کہ مومن مرد اور عورتیں خصوصاً اہل علم ایک دوسرے کے دوست ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ يَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَيُقيمونَ الصَّلوٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكوٰةَ وَيُطيعونَ اللَّـهَ وَرَ‌سولَهُ ۚ أُولـٰئِكَ سَيَر‌حَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٧١﴾... سورة التوبة

’’ مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے ۔‘‘

لہٰذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ہمدردی اور خیر خواہی کریں۔ حق کی وصیت کریں۔ غلطی کرنے والے کو اس کی غلطی پر متنبہ کریں اور شرعی دلائل کی روشنی میں صحیح بات کی طرف راہنمائی کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص139

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ