سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) اسباب اختیار کے متعلق شرعاً حکم

  • 11946
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 1844

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم لوگ عام طور پراسباب اختیار کرنے کوتوکل کے منافی خیال کرتے ہیں ،کیا ایسا ذہن رکھنا صحیح ہے، اسباب اختیار کرنے کے متعلق شرعاً کیاحکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مصائب وآلام کے وقت ایک مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کوصرف  اللہ  کے ساتھ وابستہ رکھے، جیسا کہ  اللہ  تعالیٰ کاارشاد ہے کہ’’تمام امور اسی کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں، لہٰذاتم اس کی عباد ت کرو اور اسی پربھروسہ رکھو۔‘‘  [۱۱/ہود:۱۲۳]

                ’’اوراہل ایمان کو  اللہ  تعالیٰ نے تلقین کی ہے کہ وہ اپنے ربّ پربھروسہ رکھیں ۔‘‘    [۳/آل عمران :۱۶۰]

                جو انسا ن مشکلات کے وقت  اللہ  تعالیٰ پرکامل بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ  تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوگا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو شخص  اللہ  تعالیٰ پربھروسہ رکھے گا تووہ اسے کافی ہوگا یقینا اللہ  تعالیٰ اپنے کام کوپورا کرنے والا ہے،  اللہ  تعالیٰ نے ہرچیز کاایک انداز مقرر فرمایا ہے ۔ ‘‘    [۶۵/الطلاق:۳]

                 اللہ  تعالیٰ پراعتماداور حسن ظن رکھتے ہوئے ایسے اسباب کواختیار کیاجائے جنہیں اختیار کرنے کا اللہ  تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

جیساکہ جب مشرکین نے اہل مدینہ پرچڑھائی کی تھی تورسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اوراہل مدینہ کی حفاظت کے لیے شہر کے اردگرد خندق کھودی تھی لیکن اسباب اختیار کرنے کی چند ایک اقسا م ہیں:

٭  ایسے اسباب اختیار کرنا جوبنیادی طور پر عقیدۂ توحید کے منافی ہیں، مثلاً: ہم دیکھتے ہیں کہ قبروں کے پجاری مصیبت کے وقت اہل قبور سے مدد مانگتے ہیں، ایسا کرنا شرک اکبر ہے، اور ایسے اسباب اختیار کرنے پر اللہ  تعالیٰ نے سخت ناراضی کااظہار کیاہے اوراسے جہنم کی وعید سنائی ہے۔

٭  سبب پر صرف اتناہی اعتماد کیاجائے کہ وہ صرف ایک سبب ہے، ایسے اسباب اختیار کرتے وقت بھی یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ سبب بھی  اللہ  کی طرف سے ہے۔ وہ چاہے تواسے باقی رکھے اگر چاہے توا س کی تا ثیر ختم کردے ،ایسے اسباب اختیار کرناعقیدۂ توحید یا توکل کے خلاف نہیں ہیں۔

                                                بہر حا ل بیماری اورمصیبت کے وقت شرعی اسباب اختیار کرنے کے باوجود انسان کوچاہیے کہ وہ مکمل طور پر ان اسباب پرانحصار نہ کرے بلکہ انحصار صرف  اللہ  تعالیٰ کی ذات پر ہو کیونکہ اسباب وذرائع کااختیا رکرنارسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جبکہ آپ کاحقیقی انحصار صرف  اللہ  پر ہوتا تھا، ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے آپ کے اسوۂ مبارکہ کوعمل میں لانا چاہیے، اسباب سے قطع نظر کرکے ہاتھ پاؤں باند ھ کر بیٹھ جاناشریعت کے منافی ہے اوراسباب پر کلی انحصار بھی دینِ اسلام کے خلاف ہے۔ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اسباب اورذرائع اختیار کیے جائیں لیکن آخری بھروسہ  اللہ  تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات پرہوناچاہیے کہ وہی اسباب میں تاثیر پیدا کرنے پر قادرہے اگر چاہے توان اسباب سے تاثیر سلب کردے۔     [و اللہ  اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:54

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ