سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(163) داڑھی کے خلال کا حکم اور طریقہ

  • 11896
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 3557

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی کے خلال کا کیا حکم ہے اور اسکا کیا طریقہ ہے؟اور کتنی با ر خلال کیا جائے؟تفصیل سے بیان کریں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔اخوکم :اسمعیل۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث صحیح میں ثابت ہے ‘انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  جب وضوء کرتے تو پانی کا ایک چلو لیکر ٹھوڑی کے نیچے داخل کرتے او راسکے ساتھ اپنی داڑھی کا خلال کرتے او رفرماتے:’’مجھے میرے رب نے ایسا ہی حکم دیا ہے‘‘۔(ابو داؤد :1/30) برقم(145) بیہقی(1/54)بطریق ولید بن زور ان اور وہ حسن الحدیث ہے۔

اور حدیث کی سندیں بھی ہیں جنہیں حاکم نے (1/149)میں صحیح کہا ہے اور ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے موافقت کی  ہے او رابن قطان نے بھی صحیح کہا ہے اور اسکے شواہد ہیں۔امام حاکم پ نے عثمان سے مرفوعاً روایت کیا ہے او رعمار بن یاسر ‘انس او رعائشہ رضی اللہ عنہم سے سب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے خلال روایت کرتے ہیں ۔

ابن ماجہ نے (1/72) میں برقم(429) عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے  روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں :میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو داڑھی کا خلال کرتے ہوئے دیکھا۔ترمذی برقم(29)

عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضوء کیا او راپنی داڑھی کا خلال کیا ۔ترمذی برقم(30) 

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو وضوء کرتے ہوئے دیکھا‘آپ نے اپنی داڑہی کا خلال کیا۔

تو داڑھی کےخلال  کے بارے میں یہ صحیح احادیث ہیں۔

مراجعہ کریں ارواء الغلیل(1/130)رقم(92) طبرانی اوسط میں اور دار قطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔اور ابن السکن نے اسے صحیح کہا ہے او رجب وضوء کرتے تو اپنے رخسار ملتے تھے اور ملنے کے بعد نیچے سے اپنی انگلیاں داڑھی میں داخل کرتے تھے‘‘۔ اسکی سند میں عبدالواحد مختلف فیہ ہے جیسے نیل الاوطار  (1/185) میں ہے۔

داڑھی کے خلال کے وجوب  کے بارے میں  علماء کے دو قول ہیں:

قول اول:داڑھی کا خلال وا جب ہے  کیونکہ اسمیں احادیث بکثرت ہیں اور بعض میں امر وارد  ہوا ہے جیسے کہ انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں ہے:’’اسی طرح مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے‘‘۔اور احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا داڑھی کے خلال پر مدامت کرنی یہ وجوب کی دوسری دلیل ہے۔

قول ثانی :داڑھی کا خلال استحباب کے درجے میں ہے کیونکہ احادیث کثرۃ کے باوجود ضعیف ہیں جیسے کہ شوکانی رحمہ اللہ تعالی نے نیل الاوطار(1/186-186) میں کہا ہے۔انصاف یہی ہے کہ اس باب کی احادیث یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ وہ احتجاج کے قابل ہیں وجوب پر دلالت نہیں کرتیں ‘کیونکہ یہ افعال ہیں۔

اور بعض روایتوں میں جو یہ لفظ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’اسی طرح میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے‘‘۔

امت کے لئے وجوب کا فائدہ نہیں دیتا کیونکہ ان کے ساتھ خاص ہونا ظاہر ہے اور اصول میں مشہور اختلاف پر اترنا ہے کہ جو ظاہر میں آپکے ساتھ خاص ہے وہ امت کے لئے عام ہے یا نہیں۔اور فرائض یقین ہی سے ثابت ہوتے ہیں اور اس چیز پر جو اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا فرضیت کا حکم لگانا یہ اس چیز پر جو اس نے فرض کیا ہےبلا شک عدم کا حکم لگانا ہے۔کیونکہ ان میں سے ہے ایک اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ بات کہتا ہے جو اس نے نہیں کہی۔اسمیں کوئی شک نہیں کہ ایک چلو پانی گھنی داڑھی والے منہ کے لئے منہ دھونے اور داڑھی کا خلال کرنے کےلئے کافی نہیں اور اسکا دفع کرنا جیسے کہ بعض نے کیا ہے سمجھ میں مکابرہ ہے۔ہاں احتیاط کرنے اور اوثق اختیار کرنے کی اولویت میں کوئی شک نہیں لیکن وجوب کا حکم لگائے بغیر‘‘۔آہ۔

امام صنعانی نے سبل السلام(1/48) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔مراجعہ کریں۔

اسی لئے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے کہ داڑھی کے خلال کے بارے میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے اور ابن ای حاتم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ داڑھی کے خلال کے بارے میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ بھی ثابت نہیں۔

زادالمعاد(1/68) ‘نصب الرایہ(1/26)

میں کہتا ہوں :انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا سبب ان احادیث میں عدم تحقیق ہے جو ہم نے ذکر کیں ہیں۔

اور مبارکفوریرحمہ اللہ تعالی نے تحفۃ الاحوذی (1/43) میں کہا ہے ‘میں کہتاہوں ان دونوں کا قول معارض ہے ترمذی کا عثمان کی تصحیح کے ساتھ اور اسی طرح حاکم ‘ابن حبان وغیرہ کی تصحیح کے ساتھ جو انہوں نے باب کی بعض احادیث کی کی ہے۔بلا شک داڑھی کے خلال کی احادیث بکثرت ہیں اور انکا مجموعہ دلالت کرتاہے کہ اسکی اصل ہے جب امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی حدیث عثمان رضی اللہ عنہ کی تصحیح کرتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اسے حسن کہتے ہیں جیسے کہ آپ عنقریب جان لیں گے  اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے عائشہ کی حدیث کو حسن کہا ہے تو اس کیلئےاصل کیسے نہیں ہو سکتا۔تو سب حدیثیں ملکر وضوء میں داڑھی کے خلال کے  استحباب کے قابل ہیں اور یہی میرے نزدیک حق ہے الخ۔

اور اسحاق رحمہ اللہ تعالی نے اسکے وجوب کا قول کیا ہے جیسے کہ ترمذی رحمہ اللہ تعالی میں ہے وہ کہتے ہین کہ اگر بھول کر یا تاویل  کرتے ہوئے ترک کر دے تو کفایت کرتا ہے اور اگر عمداً ترک کر دے  تو دوبارہ وضوءکرے ۔

اور المنا ر للمقبلی (1/50)  میں ہے:’’ داڑھی کا خلال  واجب ہے جیسے کہ اگنے سے پہلے ہے  اور جاننا چاہیے کہ اس باب کی احادیث بکثرت ہونے کے ساتھ ساتھ اور بعض روایتوں میں یہ تصریح ہے کہ ’’ھکذا امر ربی‘‘ جو وجو ب کا تقاضہ کرتا ہے ا س پر عمل کیا جائے گا اور اس کو لازم خیال کیا جائیگا کیونکہ جو اسکے معارض ہیں وہ صحیح نہیں ہیں مگر یہ کہ وضوء ایک ایک بار ہو اور اسمیں دلالت نہیں  کیونکہ مرۃً سے مراد مکمل دھونا ہے اور  جو اس کے قائل نہیں انکا رد کیا ہے۔

بہر حال مسلمان کیلئے مناسب یہی ہے کہ اپنے وضوء میں داڑھی کا خلال نہ چھوڑے اتباع سنت کرتے ہوئے اور اپنے دین میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے خاص کر جبکہ ابن ابی شیبہ نے (1/12) میں عمار بن یاسر‘ابن عمر‘انس ‘علی‘ابو عمامہ ‘عثمان رضی اللہ عنہم اور ابن سیرین اور ابراہیم رحمہما اللہ سے داڑھی کا خلال روایت  کیا ہے تو اسے بعض لوگوں  کے صرف فتوو ں کی وجہ سے ترک نہ کرے۔

مراجعہ کریں المغنی(1/116) تمام المنہ ص(93)

خلال کے دو یا تین بار کرنے کے بارے میں دو حدیثین ہیں:

اول:جو  ابن ماجہ نے برقم(431) میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب وضوء کرتے تو اپنی انگلیاں کشادہ کر کے داڑھی کا خلال دوبارہ کرتے تھے۔یہ حدیث ضعیف ہے یحی بن کثیر اور یزید الرقاشی دونوں ضعیف ہیں باقی حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے لیکن مرتین کا لفظ ضعیف ہے۔

دوم:وہ حدیث جسے حاکم نے (1/149)میں عامر بن شقیق سے روایت کیا ہے وہ روایت کرتے ہیں شقیق بن سلمہ سے وہ کہتے ہیں کہ میں عثمان کو وضوء کرتے ہوئے دیکھا ‘انہوں نے منہ دھویا‘استنشاق اور مضمضہ کیا تین بار اور سر ظاہر اور باطن کانوں کا مسح کیا اور داڑھی کا خلال تین بار کیا‘جب منہ دھویا پاؤں دھونے سے پہلے پھر کہا‘میں نے دیکھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اسی طرح کرتے  جس طرح تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا‘پھر کہا کہ عامر بن شقیق میں کسی بھی وجہ سے کوئی طعن نہیں۔

ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے تلخیص میں کہا ہے کہ ابن معین  نے اسے ضعیف کیا ہے ۔میں کہتا ہوں حدیث کے شواہد ہیں اور کسی میں بھی تین بار خلال کرنا نہیں۔مراجعہ کریں تلخیص الحبیر(1/85)

سابقہ احادیث سے خلال کی کیفیت بھی معلوم ہو گئی۔

اور وہ یہ ہے کہ ایک چلو پانی لیکر ٹھوڑی کے نیچے داخل کرے اور اپنی داڑھی کا اسکے نیچے سے خلال کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص373

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ