سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) منی ’ مذی اور ودی کا حکم

  • 11848
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 12044

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا منی ‘ ودی اور مذی ایک جیسی نجاستیں ہیں؟ اخوکم محب اللہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علما ءنے منی کے پاک یا نجس ہونے میں اختلاف کیا ہے  اصح قول یہ ہے کہ منی پاک ہے لیکن نظافت کے طور پر اسے کھرچا  یا دھو کا  جائے گا اور یہ بمنزلہ ناک  اور تھو ک کے ہے ۔٭دلائل یہ ہیں :

اول :عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ یقینا وہ نبی ﷺ کے کپڑ ے سے منی کھرچا کرتی تھیں پھر وہ اس میں نماز پڑھتے  تھے ’(مسلم1؍14 ) یہ حدیث دلیل ہے کہ اگر منی  نجس ہوتی  تو اس کا کپڑے سے کھرچنا کافی کیو نکر سمجھا جاتا کیو نکہ کھر  چنے سے نجاست بلا اتفاق کپڑے  میں باقی رہتی ہے۔)

دوم: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھاس کے تنکے کے ساتھ منی  اپنے کپڑے سے ہٹاتے پھر اس میں نماز پڑھتے تھے اور اگر خشک ہوتی تو اپنے کپڑے سے  کھرچ کر  اس میں نماز پڑھتے تھے ۔ مسند احمد(6؍243) اور اس کی سند صحیح ہے یہ  یہ احکام طبی طور کھن آنے والی چیزوں کا ہے  پلید  چیزوں کا نہیں ۔بیہقی(2؍418) الارواء(1؍197)۔

سوم : ابن عباس﷜ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں   کہ نبی ﷺ سے منی کے بارے میں پوچھا  گیا جو کپڑوں کو لگ جاتی ہے یہ بمنزلہ ناک اور تھوک اور رینٹھ کے ہے اسے کسی کپڑے یا تنکے سے دور کر لینا   چاہیے ۔  دار قطنی (1؍124) بیہقی (2؍418) یہ حدیث مو قوفا صحیح ہے اور مرفو عا بھی محدثین کی ایک جماعت نے اسے صحیح کہا ہے جیسے التعلیق المغنی علی سنن الدارمی  اور امام زیلعی نے الریہ (1؍210) میں مرفوع صحیح کہا ہے ۔ مراجعہ کریں  المجمع (1؍279) ۔

چہاوم: عمر ﷜ سے  کسی نے پوچھا مجھے کمبل  پر احتلام ہو گیا  ہے تو آپ کے فرمایا ’‘‘ اگر تر  ہو تو دھولے اور خشک ہو تو خوچ لے ۔ اور اگر پتہ نہ چلے  تو اس پر چھینٹے  مار لے ۔

ابن ابی شیبہ (1؍75)۔اسی وجہ سے ابن جوزی کہتے ہیں اس حدیث میں منی کے نجس ہونی کی دلیل  نہیں کیو نکہ یہ گھن کی  وجہ  سے  دھونا نجاست کی وجہ سے  نہیں ۔نصب الرایہ(1؍210) ۔

پنجم: مصعب ابن سعد اپنے والد سعد بن ابی وقاص ﷜ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے کپڑے پر اگر منی لگ جاتی تو اگر تر  ہوتی تو دور کر دیتے اور اگر خشک ہوتی  تو  کھرچ لیتے اور پھر اس (کپڑ ے) میں نماز پڑھتے ۔بیہقی(2؍218) ابن ابی شیبہ (1؍87)۔

امام بیہقی نے (1؍419) میں کہا ہے : منی صرف صفائی کی وجہ سے دھوئی جاتی ہے جس طرح ناک  رینٹھ وغیرہ کپڑ ے سے نظافت  کے لیے دھوئی جا تی ہیں نجاست کے لیے نہیں۔

ششم:اصل تمام چیزوں میں طہارت ہوتی ہے اس لیے منی کے پاک ہونے کا فیصلہ کر لینا  چاہیے  یہاں تک کہ اس کے پلید ہونے کی دلیل مل جاے  باوجود کو شش  بسیار کے  ہمیں کوئی اصل ہاتھ نہ آیا ۔معلوم  ہوا جس چیز کے لگ جانے سے احتراز ممکن نہ ہو  تو  وہ معاف ہے ۔ اور یہ بھی معلوم  ہے کہ منی کا بدن کو کپڑے  کو بسترے غیر اختیاری طور پر لگ  جانے سے امکانات  بنسبت  بلی کا برتنوں کے جھوٹا  کرنے کے زیادہ ہیں یہ فضلات کا  طوف ہے  بلکہ انسان کا رینٹھ  اور تھوک کا کپڑے کو لگ جانے سے بچنا ممکن ہے اور احتلام  و جماع میں منی سے نہیں بچا جا سکتا ۔اور یہ ظاہری مشقت  طہارت  کو واجب کرتی ہے اگرچہ نجس قرار دینے کا مقتضیٰ مو جود ہو۔

آپ دیکھتے  نہیں کہ شارع نے عادی نجاست کے (پیشاب پا خانہ ) بارے میں تحفیف کی ہے اور ڈھیلوں سے استنجاء کو کافی قرار  دیا ہے ۔با وجود  یہ کہ پانی  کے ہوتے ہوئے ڈھیلوں سے استنجاء کا ایجاب ’ بنسبت  منی سے  کپڑے کے دھونے کے زیادہ آسان ہے  خاص کر فقیر کے لیے سردیوں  میں  یا جس کے پاس ایک ہی کپڑا ہو ’  فتاویٰ لابن تیمیہ (21؍591)۔

ہفتم: اگر منی نجس ہوتی تو نبی ﷺ نے اس کے ازالے کا حکم دیا ہوتا۔

یہ بات طے ہے کہ اکثر  کوئی چیز نبیﷺ کے زمانے  میں  کثیر الوقوع  ہوا ور ان کے بعد بھی ضروری تھا کہ نبی ﷺ اس شافی ییان فر ماتے  اگر نجس ہوتی اور اس کا ازالہ ضروری ہوتا  جب نبی ﷺ نے اپنے قول و فعل سے منی کا نجس ہونا  بیان  نہیں فرمایا نہ  ہی صراحتا  یا ادلۃ یہ بیان فرما یا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل  میں  پاک  ہے کیونکہ اصل ہر چیز  میں طہارت ہے  حب  تک کہ اس کے خلاف دلیل قائم نہ ہو ۔ یہ قائدہ ہے مفتی  کو اس پر متنبہ  رہنا چاہیے ۔علا مہ ابن حزم نے المحلیٰ (1؍124) مسلہ نمبر (131)  میں فرمایا  ہے منی پاک ہے پانی  میں  ہو یا بدن  پر یا کپڑے پر اس  کا ازالہ فرض نہیں ۔ یہ مانند لال کے ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔

 پھر ھمام بن حارث کی  حدیث ذکر کی ہے  وہ کہتے ہیں کہ عائشہ  رضی اللہ عنہا نے مہمان کو دعوت  کے لیے پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا  کہ  وہ کپڑے سے جنابت (منی ) کو دھو رہے ہیں تو ف فر مانے  لگیں کیوں دھو رہے ہو ؟ میں نبی ﷺ کے کپڑے سے کھر چا کرتی تھی  تو انہوں  نے کپڑے سے  منی دھونے کو منکر سمجھا ’ پھر دوسری حدیث  ان لفظوں میں ذکر کی ’‘‘میں نبی ﷺ کے کپڑے سے  خشک کھرچا کرتی تھی پھر مخالفین کے  دلائل کے جوابات ذکر کیے ۔

ہشتم:منی ذکر سے نکلنے والی تمام  چیزں سے خلقی  لحاظ سے مختلف ہوتی ہے  یہ غلیظ جبکہ تمام پتلی ہو تی ہیں ۔اس کا رنگ سخت سفید ہوتا ہے جبکہ دیگر کا اس طرح نہیں اس کی بو کھجور کے خوشے کی طرح ہوتی ہے اور باقی چیزوں کی بو خبیث ہوتی ہے  پھر انبیاء اولیاء صلحاء  سب کی ولادت اسی پانی سے ہوئی ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے کرامت بخشی ہے  پھر کیونکہ اس کا اصل نجس ہو سکتا ہو۔

اسی لیے ابن عقیل نے منی کو نجس کہنے والے کسی شخص  سے مناظرے میں کہا تھا وہ اور منی  میں تو اس کے اصل کو جس سے پیدا  ہوا ہے پاک قرار  دینا چاہتا ہوں جبکہ  یہ نجس قرار دینے پر مصر  ہے ۔پھر منی کی حالت  اور فضلے کی حالت  کچھ اور بلکہ جو غذا  ہے اور بدن کا وہ مادہ ہے جس سے نسل قائم  رہتی ہے ۔تو یہ بنسبت  فضلے  کے اصل کے زیادہ مشابہ ہے۔

امام ابن قدامہ مفتی(1؍771) میں کہتے ہیں :منی پاک ہے امام احمد کا مشہور قول یہی ہے اور یہ قول ہے سعد بن ابی وقاص ﷜ اور ابن عمر ﷜ ابن عباس ﷜  فرماتے ہیں ‘‘ اسے گھاس یا کپڑے اور اگر چاہتا  ہے تو مت دہو۔

ابن مسیب کہتے ہیں اگر ایسے کپڑے میں (جس کو منی لگی ہو) نما ز پڑھ  لے  تو اعادہ  نہ کرے  کیو نکہ انسان کی تخلیق کی ابتدا ء اسی سے ہوئی ہے  تو مٹی کی طرح یہ بھی پاک ہے اور اس لحاظ سے یہ پیشاب سے الگ  ہے انسان کی پیدائش اسی سے  ہوتی ہے ۔

٭حافظ ابن حجر ﷫ نے فتح الباری (1؍265) میں کہا ہے ’  باب غسل المنی وقر کہ ’’ منی کو دھونے اور  کھرچنے کا باب امام بخاری ﷫ حدیث فرک نہیں لاتے ہیں  بلکہ  اپنی عادت کے مطابق   ترجمہ الباب  میں  اشارہ کو ہی کافی سمجھا   ہے اور وہ حدیث جس میں دھونے کا ذکر ہے اور وہ حدیث جس میں کھرچنے کا ذکر  ہے دونوں  کے درمیان تطبیق  ہو سکتی ہے  اگر منی کو پاک کہا جائے تو  والی دحدیث کو  نظافت کے لیے استحباب پر محمو ل کیا  جائے  وجوب پر نہیں  اور یہی طویقہ شافعی ﷫ کا ہے اور اصحاب الحدیث کا ہے ۔اور اگر نجاست کا حکم لگایا  جائے تو بھی ممکن ہے کہ دھونا محمول   تر ہونے کی حالت  میں اور کھرچنا  محمول ہو خشک ہونے کی  حالت  میں ۔یہ طریقہ  حنفیوں  کا ہے۔

پہلا  طریقہ  رواجح ہے اس لئے کہ  اس میں خبر اور قیاس  دونوں  پر عمل ہے کیونکہ  اگر یہ نجس ہو تو یہ قیاس   یہ  چاہتا  ہے دھونا فرض ہو صرف کھوچنے پر کتفاء  نہ ہو ۔ جیسے خون  وغیرہ اور  وہ اس خون میں معاف نہ ہو  صرف کھرچنے  پر اکتفاء  نہیں کرتے ۔

اور دوسرے طریقے کے خلاف  ہے  وہ روایت جو ابن خزیمہ  میں دوسری سند    سے آئی ہے عائشہ  رضی اللہ عنہا ان کے کپڑے سے اذخر کے تنکے  سے دور ک دیتی تھیں  اور جب  خشک ہوتی  تو کھرچ  دیتی  تھیں پھر آپ ﷺ اس میں نماز پڑ ھتے تھے تو اس روایت  سے خشک و تر دونوں  حالتوں میں نہ ہونا ثابت  ہوتا ہے ۔فقہ السنہ (251) میں ‘‘یہ پاک ہے اور دھونا مستحب ہے ۔’امام نووی ﷫  شرح مسلم(1؍140) میں کہتے ہیں ‘‘اکثر علماء کہتے ہیں کہ منی پاہے ’’ علی بن ابی طالب ﷜ سے روایت ہے اور سعد ’ابن عمر ’ عائشہ ﷢ داؤد اوراحمد سے یہی مروی ہے ۔یہ دلائل ہم نے ذکر کردئیے  اس کا مطالعہ کریں۔اور جو لوگ نجاست  منی کے قائل ہیں ان کے پاس کوئی ظاہر دلیل  نہیں ۔ان کے پا س  صرف شبھا    ت   ہیں  جن کا شیخ الاسلام  اپنے فتاویٰ(21؍592) میں جواب دے دیے ہیں۔

مذی اور اس کا حکم

مذی : یہ پلید ہے ذکر اور خصیوں کو اس سے دھونا چاہیے کیونکہ  علی بن ابی طالب ﷜ کی حدیث  ہے وہ  کہتے ہیں میں مذی والا  شخص تھا تو میں نے مقداد کو نبی ﷺ سے پو چھنے  کا کہا کیو نکہ  میں  ان کی بیٹی میرے نکاح میں ہونے کی وجہ سے نہیں پو چھ سکتا تھا  تو آپﷺ نے فرمایا   :ذکر کو دھوئے اور وضوء کرے۔’’بخاری (1؍41) مسلم(1؍143) المشکوٰۃ (1؍40)اور ابو داؤد  رقم(208) میں ہے اپنے  ذکر اور خصیوں کو دھوئے ’ اور اس کی سند  صحیح ہے۔

اور ابو داؤد  میں (برقم :211) میں عبداللہ بن سعد انصاری ﷜ سے روایت ہے  وہ کہتے   ہیں  کہ رسول اللہﷺ  سے پوچھا  کہ  کس  چیز  سے  غسل کرنا واجب ہے اور  وہ  پانی  کے بعد نکلتا  ہے تو آ پ نے فر مایا  یہ مذی  ہے اور مرد کی نکلتی ہے   تو اس کے نکلنے سے  اپنے  فرج اور خصیوں کو دھو لے  اور پھر وضوء کر لے  جس طرح نماز کے لیے وضوء کرتا ہے ۔ اور اسکی سند صحیح ہے ۔

تو ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مذی کے نکلنے سے ذکر اور خصیوں   کو دھونا واجب ہے  جبکہ  کپڑے پر نہ لگی ہو ۔ کپڑے پر مذی لگنے  کی صورت میں چھینٹے مارنا کافی ہے کیونکہ دھونے میں حرج ہے ۔اس لیے امام ابن عثیمین  نے مجموعہ(4؍222) میں کہا  ہے ’ کہ ودی اور منی کے احکام یہ ہیں کہ ودی کا حکم من کل الوجوہ پیشاب کا ہے اور مذی کا حکم پاک کرنے کے بارے  میں پیشاب  سے مختلف  ہے کیونکہ اس کی نجاست پیشاب کی نجاست سے اخف ہے  تو اس میں چھینٹے   مارنے کافی ہیں ۔وہ محل جہاں مذی لگ جائے پانی پہنچانا کافی ہے نچوڑنے اور کھرچنے  کی ضرورت نہیں ۔اور اس طرح اس میں ذکر اور حصیوں پر اگرچہ مذی نہ لگی ہو دھونا واجب ہے ۔

اور منی پاک ہے تو اس کا دھونا لازم نہیں  البتہ صرف اس کا  اثر زائل کرنے کے لیے  دھو یا  جاسکتا ہے اس غسل  فرض ہو جاتا ہے ۔اور پیشاب سے وضوء فرض ہوتا ہے ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص316

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ