سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(707) جو شخص گناہ کا ارادہ کرے اور پھر گناہ نہ کرے تو۔۔۔۔۔

  • 11083
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1985

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا نفس مجھے کئی بار کسی برے کام کے کرنے یا بری بات کے کہنے پر اکساتا ہے لیکن اکثر اوقات میں ایسے برے قول و فعل سےباز رہتا ہوں تو کیامحض نفس کے اکسانے کی وجہ سےمیں گناہ گار ہوں گا ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کسی انسان کانفس اسے کسی حرام کام پر اکسائے خواہ اس کا تعلق کسی واجب کے ترک یا حرام فعل کے ارتکاب سے ہو اور پھر وہ اس نفسیاتی خواقش کو ترک کرتےہوئے واجب کو ادا کرے اور حرام کو ترک کردے تو اسے اجر وثواب ملے گا کیونکہ اسنے حرام فعل کے ارتکاب کو اللہ تعالی کے لیے ترک کیا ہے۔صحیح حدیث سےیہ ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برائی کارادہ کرے اور پھر اسےعملی جامہ نہ پہنائےتو اس کے لیےایک مکمل نبکی لکھ دی جاتی ہے ،کیونکہ اس نے اس برائی کو اللہ عزوجل کے لیےترک کیا ہے ۔ یہاں ا س مسئلہ کی قدرے تفصیل بیان کرنا  مناسب معلوم ہوتاہے  کہ جو شخص کسی حرام کو ترک کرے تو کیا اسے اجر ملے گا یا نہیں ؟ جو شخص کسی حرام کام کو ترک کرتا ہے تو وہ تین حالات میں سےکسی ایک سے خالی نہیں ہوتا ہ:

1۔ اس لیے ترک کرتاہے کہ وہ اس کے لیے تمام اسباب کو تو اختبار کرتاہےمگر اسےسرانجام دینے سے عاجو و قاصر رہتا ہے تو ایسے شخص کو گناہ ہوگا کیونکہ حضرت ابو بکر ﷜ کا بیان ہے کہ میں نے رسو ل اللہ سٰے سنا آپ فرمارہے تھے :

«إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِي النَّارِ»، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا القَاتِلُ فَمَا بَالُ المَقْتُولِ قَالَ: «إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ»

 (صحيح البخاري ، الايمان  باب وان طائفتان من امؤمنين اقتتلوا ----ألخ ح : 31 وصحیح مسلم ،الفتن ،باب اذا تواجہ المسلمان بسیفہما ،ح : 2888)

’’جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ اپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم رسید ہوں گے ۔ میں نے عرض کیا :یارسو ل اللہ ﷺ یہ قاتل (تو ضرور جہنمی ) ہے ،مگر مقتول کیوں جہنمی ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کا حریص تھا ۔‘‘

2۔اللہ تعالی کے ڈر اور خوف کی وجہ سے اسےترک  کرتا ہے تو اسے ایک مکمل نیکی کا ثواب ملے گا کیونکہ اس نے حرام کام کو محض اللہ تعالی کے لیے ترک کیا ہوتا ہے ۔

3۔ اس نے حرام کام کو اس لیے ترک کیا کہ بعد میں اس کے کرنے کا خیال ہی نہ آیااوراسے اس نے کوئی اہمیت ہی نہ دی تو اسے نہ ثواب ملے گا اور نہ کوئی گناہ ہوگا ۔

4۔ اس سلسلہ میں ایک چوتھی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حرام کام اس نے عاجز و قاصر ہونے کی وجہ سےترک یااور پھر اس کے لیے ضرور اسباب و وسائل کو بھی استعمال نہ کیا ۔ البتہ اس کام کے کرنے کی اس نیت ضرور تھی تو اسے نیت کے مطابق گناہ ہوگا ، البتہ یہ اس شخص کی طرح نہیں ہے ، جس نے اسباب و وسائل کو تو اختیار کیا ، مگر اس حرام کا ارتکاب اس کے لیے ممکن نہ ہوا یعنی کم تر درجے کا گناہ گار ہوگا ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص535

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ