سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(567) آنے والے کے لیے کھڑا ہونا اور بوسہ دینا

  • 10941
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2014

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آنے والے کے لیے کھڑے ہو نے اور اسے بوسہ دینے کے با رے میں کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولا :جہا ں تک آنے والے کے لیے کھڑے ہو نے کا تعلق ہے تو اس کا شیخ الا سلام ابن تیمیہ رحمة الله  نے بڑ ا مفصل جواب دیا ہے جو ادلہ شرعیہ بر مبنی ہے لہذا ہم منا سب سمجھتے ہیں کہ اسے ہی ذکر دیں کیو نکہ اس سے مقصود پورا ہو جا تا ہے ۔ شیخ الا سلام اما م ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے  ہیں:

نبی ﷺ کے عہد مبا رک میں صحا بہ رضی اللہ عنہم اور خلفا ئے راشدین کی یہ عا دت نہ تھی کہ وہ جب  بھی نبی ﷺ کو دیکھیں تو کھڑے ہو جا ئیں جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں بلکہ حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں:

لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ.(جامع ترمذی، الادب ، باب ما جاء فی کراهیة قیام الرجل للرجل ح : 2754)

صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کے نز دیک نبیﷺکی ذات گرامی سے بڑھ کر اور کو ئی شخص محبوب نہ تھا مگر اس کے باوجود وہ آپ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہو تے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ رسول اللہﷺ اسے نا پسند فرماتے ہیں۔

بعض اوقا ت وہ عرصہ بعد آنے وا لے کسی شخص کے استقبا ل کے لیے کھڑے ہو جا تے تھے جیسا کہ نبیﷺ سے مروی ہے کہ آپ عکرمہ کے لیے کھڑے ہو ئے اور جب سعد بن معاذ آئے تو آپ نے انصا ر سے فرمایا کہ اپنے سردار کے لیے کھڑ ے ہو جاو۔ (صحیح البخاري ،الاستیذان باب قول النبی ﷺ (قوموا الی سیدکم )(حدیث :6262 وصحیح مسلم الجہاد ، باب جواز قبتال من نقض العہد ۔۔۔۔الخ  حدیث 1768 )

اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس لیے آئے تھے تا کہ بنی قریظہ کا فیصلہ کریں انہوں نے آپ کے فیصلے کو قبو ل کے نے کے لیے رضا مندی کا اظہا ر کردیا تھا ۔

لوگوں کو بھی یہی با ت زیب دیتی ہے کہ وہ اسی کی اتبا ع کریں جو رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سلف کا عمل تھا کیو نکہ وہ خیر القرون ہیں اور سب سے بہتر کلا م اللہ کا کلا م ہے اور سب سے بہتر سیرت رسول اللہﷺکی سیرت ہے لہذا کوئی شخص خیر الوری حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سے اعراض کر کے کسی اور طر یقے کو اختیا رنہ کرے معزز آ دی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے سا تھیو ں کو یہ تلقین کرے کہ وہ اسے جب بھی دیکھیں تو کھڑے نہ ہو ا کریں الا ی کہ ایسی ملا قا ت ہو کہ وہ سفر سے واپس آیا ہو ۔

سفر سے واپس آنے والے شخص کے استقبا ل کے لیے کھڑا ہو نا اچھی با ت ہے اور جب لوگو ں کی یہ عا دت ہو کہ آنے والے شخص کی کھڑ ے ہو کر عزت افزائی کی جا تی ہو اور اگر اسے ترک کردیا جا ئے تو وہ یہ سمجھے کہ اس سے اس کے حق کو تر ک کردیا گیا ہے یا اس کے مر تبہ کو کم کردیا گیا ہے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ لوگوں کی یہ عا دت سنت کے مو افق ہے تو زیا دہ مناسب با ت یہی ہے کہ اس کے لیے کھڑا ہو ا جا ئے کیو نکہ یہ آپس کی الفت و محبت کے لیے اور با ہمی بغض و نفرت کے ازالہ کے لیے زیادہ  مو زوں ہے اور اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ لوگوں کی عا دت سنت کے مو افق ہے تو پھر ترک قیام میں اس کے لیے کو ئی تکلیف وہ با ت نہ ہو گی اور اس قیام سے مراد وہ قیا م نہ ہو گا جس کا نبیﷺ کے اس فرمان میں ذکر آ یا ہے:

جس شخص کو یہ با ت خو ش لگے کہ لوگ اس کے لیے کھڑ ے ہوں تو اسے اپنا ٹھکا نا جہنم سمجھنا چا ہیے ۔  

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.(جامع ترمذی ، الادب باب ما جاء فی کراهیة قیام الرجل للرجل ،ح : 2755)

’’جس شخص کو یہ بات خوش لگے کہ لوگ اسکےلیے کھڑے ہوں تو اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں سمجھنا چاہیے۔‘‘

کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ اس کے لیے کھڑے رہیں جب کہ وہ خود بیٹھا ہو ، اس سے مراد کسی کی آمد پر کھڑا ہونا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہےکہ قمت الیہ اور قمت لہ میں اہل علم نے فرق کیا ہے ۔ آنے والےکے لیے جب کوئی شخص کھڑا ہوتا ہے تو وہ دونوں برابر ہو جاتے ہیں لیکن بیٹھے ہوئے کے سامنے کھڑا ہونے کی صورت میں دونوں برابر ہوتے ۔ صحیح مسلم کی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے جب اپنی بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہو کر پڑھنا چاہی تو آپ نے انہیں بھی بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا :

(لاتعظمونی کما یعظم الاعاجم بعضها بعضا ))( لم اجده بهذااللفظ ،ومعناه موجود  فی صحیح مسلم  ، الصلاة ، باب ائتمام الماموم بالامام ، ح : 413)

’’تم میری اس طرح تعظیم نہ کرو جس طرح عجمی لوگ آپس میں ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘

آپ نے انہیں نما ز میں بھی اس وقت کھڑ ے ہو نے سے منع فرما دیا جب کہ آپ بیٹھے ہو ئے تھے تا کہ ان عجمی لوگوں کے سا تھ مشا بہت نہ ہو جو اپنے بڑوں کے سا منے کھڑے رہتے ہیں جب کہ وہ خو د بیٹھے ہو تے ہیں بہرحا ل سب سے مو زوں با ت یہ ہے کہ مقدور بھر کو شش کرتے ہو ئے سلف کے اخلا ق و عا دات کا اتبا ع کیا جا ئے لیکن جو شخص اس کا خیا ل نہ کرے اور نہ اسے یہ معلوم ہو کہ یہ لوگوں کی عا دت ہے اور لوگوں کے بطور احترام کھڑ ے ہو نے کی عادت کی وجہ سے اس کے لیے کھڑ ے نہ ہو نے کی صورت میں مفسدت کا پہلو را جح ہو تو اس صورت میں کم درجہ کے مفسدہ کو اختیا ر کرکے دونوں میں سے بڑ ے فسا د کو ترک کردیا جا ئے جیسا کہ ادنی مصلحت کو ترک  کر کےعظیم مصلحت کو اختیا ر کرنا واجب ہو تا ہے۔

 آپ نے جو ذکر فرمایا ہے اس کی مزید و صا حت حضرت کعب بن ما لک رضی اللہ عنہ کے اس قصہ سے بھی ہو تی ہے جو صحیحین میں ہے کہ جب اللہ تعا لی نے ان کی اور ان کے دونوں سا تھیوں کی تو بہ کو قبو ل فرما لی اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ مسجد میں دا خل ہو ئے تو طلحہ بن عبیداللہ کھڑے ہو گئے اور ان کی طرف دوڑ کر آئے اور سلام کہا اور تو بہ کی قبولیت کی مبا رک با د دی

تو نبی ﷺ نے انہیں اس سے منع نہیں فرمایا تھا (صحیح البخاري ، بابا حدیث کعب بن مالک ،حدیث : 4418 وصحیح مسلم ، التوبۃ ، باب حدیث کعب بن مالک و صاحبیه ، حدیث : 2769) اس سے معلوم ہو ا کہ آنے والے کے استقبا ل مصا فحہ اور سلام کے لیے کھڑے ہو نا جا ئز ہے۔اسی طرح حدیث سے ثا بت ہے کہ آپ جب اپنی لخت جگر حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا کے گھر جا تے تو وہ کھڑی ہو جا تیں تو آپ بھی ان کے لیے کھڑے ہو تے ان کے ہا تھ کو پکڑ لیتے اور انہیں اپنی جگہ بٹھا دیتے بھے امام ترمذی رحمة الله نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے (جامع الترمذي، المناقب ، باب ماجاء فی فضل فاطمة (بنت محمد ﷺ ) رضی اللہ عنہا ، حدیث : 3872 )

ثا نیا : جہاں بک بو سہ دینے کا تعلق ہے تو نبیﷺ سے اس کا جو از ثا بت ہے ۔حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ زید بن حرثہ مدینہ مین آئے تو اس وقت رسول اللہﷺ میرے گھر میں تشرف فرما تھے وہ آئے تو انہوں نے دروازے بر دستک دی رسول اللہ ﷺ نے اس وقت صرف تہبند با ندھا ہو ا تھا آ پ نہبند کو گھٹتیے ہو ئے اس طرح با ہر تشرف لے گئے کہ ایسی حا لت میں اس سے پہلے یا بعد کبھی میں نے آپ کو نہیں ریکھا تھا ۔۔۔ آپ نے زید کو گلے لگا یا اور بو سہ دیا ۔اسے امام ترمذی رحمة الله نے روایت کیا اور حسن قرار جیا ہے(جامع الترمذی ، الاستیذان ،باب ماجاء فی المعانقۃ ، حجیث : 2732) یہ حدیث اس با ت کی دلیل ہے کہ با ہر سے آنے والے کے استقبا ل کے لیے ایسا کرنا جا ئز ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بو سہ دیا تو اقرع بن حا بس نے کہا کہ میر ے تو دس بیٹے ہیں مگر میں نے ان میں سے کسی کو بو سی نہیں دیا تو نبیﷺنے فرمایا:

جو شخص رحم نہیں کرتا اس بر بھی رحم نہیں کیا جا ئے گا ۔

((من لایرحم  لا یرحم )) ( صحیح البخاري، الادب ،باب رحمة الولد وتقبیله ومعانقته ، ح : 5997 وصحیح مسلم ، الفضائل ، باب رحمته ﷺ الصبیان والعیال ۔۔۔الخ ، ح : 2318)

’’جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیاجائےگا۔‘‘

یہ حدیث اس با ت کی دلیل ہے کہ شفقت و رحمت کے طور پر بو سہ دینا جا ئز ہے جب کہ دلیل سے یہ ثا بت ہے کہ عا م ملا قا ت کے وقت بو سہ نہیں دینا چا ہیے بلکہ مصا فحہ پر اکتفا ء کرنا چا ہیے ۔ حضرت قتا دہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مصا فحہ کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ۔

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل یمن آ ئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :

«قَدْ جَاءَكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ، وَهُمْ أَوَّلُ مَنْ جَاءَ بِالْمُصَافَحَةِ» (سنن ابي  داود  الادب باب في المصافحة ح 5213)

’’اہل یمن آئے ہیں اور یہ وہ سب سے پہلے لوگ ہیں جنہو ں نے مصا فح کو اختیا ر کیا ہے۔‘‘

حضرت براء بن عا زب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ، فَيَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا» (سنن ابی داود ، الادب ، باب فی المصاحفة ، ح : 5212)

’’جب بھی دو مسلمان آپس میں ملا قات کرتے ہو ئے مصا فحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے الگ ہو نے سے پہلے ان کے گنا ہو ں کو معا ف کردیا جا تا ہے۔‘‘

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جب ہم میں سے کوئی اپنے بھا ئی یا دوست سے ملے تو کیا اس کے لیے جھکے ؟آپ نے فرمایا نہیں ۔عرض کیا گیا اسے چمٹ جا ئے اور بوسہ دے ؟ آپ نے فرمایا نہیں عرض کیا اس کے ہا تھ کو پکڑ لے اور اس سے مصا فحہ کرے ؟ آ پ نے فرمایا ہاں۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے (جامع الترمذي، الاستیذان ، باب المصافحة ، حدیث : 6263) مگر اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کی  سند میںایک راوی حنظلہ سدوسی ہے جو اہل علم کے نز دیک ضعیف ہے۔ ممکن ہے کہ امام ترمذی نے اس حدیث کو دیگر شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہو ۔امام احمد نسا ءی ترمذی اور کئی دیگر محدثین نے صحیح سندوں کے سا تھ روایت کیا ہے اور امام نے بھی صفوان بن عسا ل رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے کہ دو یہودیوں نے نبی ﷺ سے ان نو روشن نشا نیوں (جو اللہ  تعالیٰ نے حضرت مو سی علیہ السلام کو عطا فرما ئی تھیں ) کے با رے میں سوال کیا اور آپ نے جب ان کے سوال کا جاب دیا تو انہوں نے آپ کے دونوں ہا تھو ں اور پا وں کو بو سہ دیا اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں (جامع الترمذي ، الاستیذان باب ماجاء فی قبلة الیدوالرجل ، حدیث : 2733)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص428

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ