سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(370) مختلف جماعتوں میں تعاون کے ضابطے

  • 10746
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1080

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بلاشک وشبہ دعوت  کی کامیابی اور لوگوں کے ہاں اس کے قابل ہونے کے لیے یہ از بس  ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف  دعوت دینے والوں کا آپس میں تعاون ہو۔ سوال یہ ہے کہ  اسلامی دنیا میں بھی  بہت سی  جماعتیں دعوت کا کام کر رہی ہیں ۔ ہر جماعت کا اسلوب اور طریقہ مختلف  ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عقیدہ  جیسے بہت سے اہم مسائل میں آپس  میں اختلاف بھی ہے'توآپ کے نزدیک  ایک دوسرے  کے ساتھ  مل کر کام کرنے  اور تعاون کرنے  کے لیے  کیا ضابطہ ہوسکتے ہیں ؟اس مسئلہ میں آپ کی رہنامئی  کی ضرورت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قسم کے اختلاف کی موجودگی میں ضابطہ یہ ہے کہ ہم اس کی طرف رجوع  کریں 'جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے درج ذیل  آیت کریمہ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ۚ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورةالنساء

’’اےمومنو! اللہ اور اس کے رسول  کی فرماں برداری  کرو اور جو تم میں سے  صاحب حکومت ہیں ان کی بھی  اور اگر کسی ابت  میں تم  میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز  آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم ) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے کہ  اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔‘‘

 اور فرمایا :

﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذ‌ٰلِكُمُ اللَّهُ...﴿١٠﴾... سورةالشورىٰ

’’اور تم جس  بات میں اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ  اللہ کی طرف  سے ہوگا۔‘‘

جو شخص عقیدہ  یا عمل میں یعنی علمی یا عملی  امور میں راہ راست سے بھٹک جائے 'واجب ہے کہ اس کے سامنے حق کو واضح کردیا جائے ۔اگر وہ حق  کی طرف رجوع کرلے تو یہ اللہ  تعالیٰ کی طرف سے  اس کے لیے بہت بڑی نعمت ہوگی  اور اگر وہ رجوع نہ کرے  تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے  اس کی آزمائش ہوگی ۔ ہم پر واجب یہ ہے کہ ہم اس کی غلطی  کو واضح کردیں 'جس میں وہ واقع ہوچکا ہے  اور مقدور بھر اسے  اس غلطی سے بچائیں اور اس کے ساتھ  ساتھ  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس بھی نہ ہو' بلاشبہ اس نے بڑی  بڑی بدعات کا ارتکاب کرنے  والے کئی لوگوں کی طرف  رجوع  کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور پھروہ اہل سنت  میں شمار ہوگئے

 ہم میں سے بہت سے لوگوں پر یہ بات مخفی نہیں  ہے کہ امام ابو الحسن  اشعری  رحمہ اللہ چالیس  سال تک  فرقہ معتزلہ سے وابستہ رہے 'پھر  کچھ عرصے تک قدرے ان سے ہٹے رہے 'اور بالآخر تاویل اور اعتزال  کےتمام  راستوں کو  چھوڑ کر سب  سے سیدھے راستہ  یعنی اہل سنت  والجماعت  کے مذہب سے وابستہ ہوگئے ۔فالحمدلله علي ذلك ّحاصل کلام یہ ہے یہ عقیدہ سے متعلق مسائل بہت اہم ہیں  ۔اگر ان میں  کوئی کمی ہوتو واجب ہے کہ نصیحت کی جائے جیسا کہ علمی امور میں نصیحت کرنا بھی واجب ہے اگرچہ  اہل علم میں  زیادہ تر  اختلاف ہے مثلاً آگ کے فنا ہونے کا مسئلہ 'عذاب برزخ کامسئلہ 'میزان کا مسئلہ 'یہ ،مسئلہ کہ کس  چیز کا وزن ہوگا اور اس طرح کے دیگر  مسائل میں کافی  اختلاف ہے لیکن  ان مسائل میں اختلاف کا اگر آپ عملی مسائل میں اختلاف سے مقابلہ کریں تو یہ بہت  معمولی اختلاف ہوگا وللہ الحمد! بہرحال ہم پر واجب ہے کہ جو شخص بھی علمی یا عملی مسائل میں اختلاف  کرے ہم ازراہ نصیحت وہمدردی حق  کو اس کے سامنے بالکل واضح کردیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص294

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ