سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(369) اختلاف رحمت سے نہیں ہے

  • 10745
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 992

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ نے اپنی کتاب "زاد الداعیة الی اللہ عزوجل ' میں لکھا ہے کہ ’’فرقہ بندی اور گروہ بندی  سے اسلام اور  مسلمان کے دشمن  کےسوا اور کسی  کی آنکھ ٹھنڈی نہیں ہوسکتی‘‘ جب کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ’’ میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘ تو اس اختلاف سے  جو رحمت ہے کیا مراد ہے اور آپ نے اپنی کتاب میں جس  تفرقہ بازی کی طرف اشارہ کیا ہے'اس سے کیا مقصود ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 یہ حدیث جس کا سائل نے ذکر کای ہے ضعیف ہے ۔صحیح سند سے یہ نبی ﷺ  سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ وَلا يَزالونَ مُختَلِفينَ ﴿١١٨ إِلّا مَن رَ‌حِمَ رَ‌بُّكَ ۚ وَلِذ‌ٰلِكَ خَلَقَهُم ۗ ... ﴿١١٩﴾... سورةهود

’’اور وہ ہمیشہ (باہم )اختلاف کرتے رہیں گے سوائے ان لوگوں کے جن پر رحم کیا آپ  کے رب  نے اور اسی لیے اس نے پیدا  کیا ان کو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اختلاف  کو ان لوگوں کی صفت قراردیا ہے جن پر وہ رحم نہیں فرماتا 'لہذا امت کو اختلاف نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کیرحمت یہ ہے کہ اختلاف نہ کرے ۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ اقوال مختلف نہ ہوں کیونکہ اقوال تو مختلف ہوتے ہیں 'بلکہ میرے کہنے  کا مقصد یہ ہے کہ دلوں میں اختلاف نہ ہو۔

اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ حدیث صحیح  یا حجت ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ امت کی آراء میں جو اختلاف  ہے تو  وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے تحت  داخل ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ مجتہدین پر رحم فرمائے گا خواہ اجتہاد میں ان کے مابین اختلاف  ہی کیوں نہ ہو ۔ یعنی اگر مجتہد اجتہاد  سے کام لے اور اس کا اجتہاد غلط بھی ہوتو اللہ تعالیٰ اسے سزا نہیں  دے گا جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:

((اذا حكم الحاكم فاجتهد ثم  اصاب فله اجران واذا حكم فاجتهد‘ ثم اخطا فله اجر)) (صحيح البخاري الاعتصام بالكتاب والسنة ‘باب اجر الحاكم اذا اجتهد فاصاب او اخطا ‘ ح: ٧٣٥٢ وصحيح مسلم ‘الاقضية ‘باب بيان اجر الحاكم اذا اجتهد فاصاب او اخطا ‘ ح: ١٧١٦)

’’جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد سے کام لے اورا س کا اجتہاد درست  ہوتو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ کوئی فیصلہ کرے اور اجتہاد سے کام لے اور اس کا اجتہاد غلط ہوتو پھر بھی اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘

اگر یہ حدیث صحیح ہوتو اس کے معنی یہ   ہیں کہ ورنہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یہ رسول  اللہ ﷺ سے ثابت  نہیں ہے 'لہذا "زادالداعية" میں جو کچھذکر کیا (لکھا) گیا ہے اس میں اور صحیح حدیث میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص293

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ