سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کسی بہت بڑے گناہ کو روکنے کے لیے جھوٹ بولنا

  • 10684
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1250

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی بہت بڑے گناہ کو روکنے کے لیے جھوٹ جائزہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بنیادی طور پر شریعت میں جھوٹ بولنے کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اسے تمام گناہوں کی جڑ کہا گیا ہے ،لیکن اگر جھوٹ بولنے سے فتنہ ٹل جائے اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی وغیرہ ہوجائے تو مصلحت کی خاطر جھوٹ بولنا جائز ہے۔

نبی کریم نے صلح کی غرض سے جھوٹ بولنے والے کو جھوٹا نہیں کہا۔آپ فرماتے ہیں۔:

" ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس، فينمي خيرا، أو يقول خيرا "(بخاری:2692)

جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے۔

اس حدیث میں اس انسان کو جو دو انسانوں میں صلح کرانے کے لئے کچھ اچھے کلمات اپنی طرف سے شامل کرتا ہے تاکہ ان دو آدمیوں میں جن میں جگھڑا ہوا ہے ختم ہو جائے اور ان میں صلح ہو جائے اور ایسے کلمات جو اس نے ان دونوں میں صلح کرانے کے لئے اپنی طرف سے بولے تھے ان کلمات پر جھوٹ کا اطلاق نہیں ہوگا کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس نے اچھی نیت سے یہ الفاظ شامل کئے۔

شریعت میں اس قدر اجازت ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ جان بچانے کے لئے قولاً یا فعلاً کفر کا ارتکاب کر لے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو وہ کافر نہیں ہوگا۔۔

﴿مَن كَفَرَ‌ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِ‌هَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ...﴿١٠٦﴾... سورةالنحل

جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو یہ معاف ہے

اسی طرح ''مردکا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے مرد سے اس وجہ سے جھوٹ بولنا تاکہ ان کے درمیان نفرت ختم ہو جائے ''(ابوداؤد ،الحدیث 4275 )

مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک مقاصد کے تحت ،فتنے سے بچنے،دشمن سے اپنی جان بچانے اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے کی غرض سے جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ