سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(676) نذر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی

  • 10061
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 935

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بیوی نے یہ نذر مانی تھی کہ جب اس کے بیٹے نے میٹرک کی سند حاصل کر لی تو وہ ہر ماہ چھ روزے رکھا کرے گی اس نے تقریباً ایک سال پہلے یہ سند حاصل کر لی اور اس نے اس تاریخ سے روزے رکھنے شروع کر دیے لیکن اب اسے اس نذر کی وجہ سے بہت ندامت اور دشواری کا سامنا ہے کیونکہ بچوں کی تربیت‘ گھریلو کام کاج اور خصوصاً موسم گر ما میں اسے روزے رکھنے میں بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا اس نذر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا وہ ہمیشہ روزے رکھتی رہے یا اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے؟ یاد رہے اس نے نذر یہ مانی تھی کہ وہ ساری زندگی ہر ماہ چھ روزے رکھے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عورت کو اپنی نذر پوری کرنی چاہئے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ۔ ( صحیح بخاری)

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے اطاعت کرنی چاہئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانے تو اسے اس کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے‘‘۔

اور اللہ تعالیٰ نے نذر کو پورا کرنے والوں کی تعریف میں فرمایا ہے:

﴿وفونَ بِالنَّذرِ‌ وَيَخافونَ يَومًا كانَ شَرُّ‌هُ مُستَطيرً‌ا ﴿٧﴾... سورة الدهر

’’یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی پھیل رہی ہوگی‘‘۔

اگر اس عورت نے متواتر روزے رکھنے کی نیت نہیں کی تھی تو پھر الگ الگ روزے رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس نے متواتر روزے رکھنے کی نیت کی تھی تو پھر اے متواتر روزے ہی رکھنے ہوں گے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے۔ اسے عظیم اجرو ثواب عطا فرمائے اور اسے بھی اور دیگر مسلمانوں کو بھی یہ وصیت کرتے ہیں کہ وہ نذر نہ مانا کریں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

«" لَا تَنْذِرُوا، فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ"( صحيح مسلم)

’’نذر نہ مانا کرو کیونکہ نذر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں ٹال سکتی ہاں البتہ اس کے ساتھ بخیل سے کچھ مال ضرور نکال لیا جاتا ہے‘‘۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص541

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ