سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(667) نذر کی جہت بدلنے کا حکم

  • 10052
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2366

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا انسان کیلئے نذر کی جہت تبدیل کرنا جائز ہے؟ یعنی نذر ماننے او راس کی جہت متعین کرنے کے بعد جب کوئی اور جہت زیادہ مستحق نظر آئے تو کیا اس میں تبدیلی جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ انسان کو نذر نہیں ماننی چاہئے کیونکہ نذر مکروہ یا حرام ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:

«انه لا يأتي بخير وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ"( صحيح بخاري)

’’یہ کوئی خیر نہیں لاتی ہاں البتہ اس کے ساتھ بخیل کا کچھ مال ضرور نکل لیا جاتا ہے‘‘۔

نذر کے ذریعے جس خیرو بھلائی کی توقع کی جاتی ہے۔ اس کا سبب نذر نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ جب بیمار ہوتے ہیں تو یہ نذر مانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے شفا بخشی تو وہ یہ کام کرے گا یاا کسی چیز کے گم ہو جانے کی وجہ سے نذر مانتے ہیں کہ اگر ان کی وہ گمشدہ چیز مل گئی تو وہ یہ کام کریں گے لیکن جب انہیں شفایا گم شدہ چیز حاصل ہو جائے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ چیز انہیں نذر کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے بلکہ یہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بے نیاز ہے کہس وال کیلئے وہ کسی شرط کا محتاج ہو لہٰذا آپ کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ اس مریض کو شفا عطا فرمائے یا اس گمشدہ چیز کو واپس لوٹا دے‘ نذر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور بہت سے لوگ نذر مانے اور مقصود حاصل ہونے کے باعث نذر پورا کرنے میں سستی کرتے ہیں یا اسے پورا کرتے ہی نہیں تو یہ بات بہت خطرناک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ سماعت فرمائیے:

﴿وَمِنهُم مَن عـٰهَدَ اللَّهَ لَئِن ءاتىٰنا مِن فَضلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكونَنَّ مِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿٧٥ فَلَمّا ءاتىٰهُم مِن فَضلِهِ بَخِلوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَهُم مُعرِ‌ضونَ ﴿٧٦ فَأَعقَبَهُم نِفاقًا فى قُلوبِهِم إِلىٰ يَومِ يَلقَونَهُ بِما أَخلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدوهُ وَبِما كانوا يَكذِبونَ ﴿٧٧﴾... سورة التوبة

’’اور ان میں بعض ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے مال عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیکوکاروں میں ہو جائیں گے لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) روگردانی کر کے پھر بیٹھے تو اللہ نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کیلئے جس میں وہ اللہ کے روبرو حاضر ہوں گے‘ ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کیخلاف کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے‘‘۔

لہٰذا مومن کو نذر نہیں ماننی چاہئے۔ اب رہا اس سوال کا جواب تو وہ یہ ہے کہ جب انسان کسی چیز کے بارے میں نذر مان لے او رپھر وہ یہ دیکھے کہ کوئی دوسری چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں سے زیادہ افضل و اقرب اور بندگان الٰہی کیلئے زیادہ نفع بخش ہے تو پھر نذر کو اس کی طرف تبدیل کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو فتح مکہ سے نوازے تو میں بیت المقدس میں نماز پڑھوں گا۔

«صَلِّ هَاهُنَا، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:  صَلِّ هَاهُنَا ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: شَأْنُكَ إِذَنْ۔ ( سنن ابی داؤد)

آپ نے فرمایا تم یہاں نماز پڑھ لو‘ اس نے اپنی بات پھر دہرائی تو آپ نے فرمایا تم یہاں نماز پڑھ لو‘ اس نے اپنی بات تیسری بار دہرائی تو آپ نے فرمایا: پھر تم جانو‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر انسان نذر میں ادنیٰ کو افضل سے بدل دے تو یہ جائز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص532

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ